ڈیلی دھرتی (ویب ڈیسک) بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سوہدرہ کے محلہ مسلم آباد کی گلی مسجد رضا والی میں ایک چار مرلے کا گھر ہے، جو اندر اور باہر سے ابھی پلستر نہیں ہوا۔ اس کی سیمنٹ سے محض چُنائی ہوئی ہے، گویا یہ گھر ابھی زیرِ تعمیر ہے۔ اس زیرِ تعمیر گھر میں اپنے دو ننھے بیٹوں، بوڑھی والدہ اور اہلیہ کے ہمراہ نوید احمد رہائش پذیر تھے۔
عمران خان کے لانگ مارچ پر فائرنگ کے بعد سے وزیر آباد کا یہ علاقہ خبروں میں ہے کیونکہ پولیس کی حراست میں موجود ایک مبینہ حملہ آور نوید احمد کا تعلق اسے علاقے سے بتایا جا رہا ہے۔
وزیر آباد میں اللہ والا چوک کے مقام پر جب تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا کنٹینر پہنچا تو وہاں اچانک فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان سمیت بعض دیگر لوگ زخمی ہوئے۔
اس کے فوراً بعد تحریک انصاف کے کارکنان مبینہ حملہ آور نوید احمد کے پیچھے بھاگے جنھیں انھوں نے فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا اور ایک کارکن نے تو انھیں فائرنگ کے دوران روکنے کی بھی کوشش کی تھی۔
نوید احمد کو کچھ ہی دیر میں ایلیٹ فورس نے پکڑ لیا اور مقامی تھانے لے گئے۔
اس واقعے کا مقدمہ تاحال درج نہیں کیا گیا اور نہ ہی پولیس نے کوئی باقاعدہ بیان جاری کیا ہے۔ مگر نوید احمد کی تھانہ کنجاہ گجرات کے اندر سے متعدد ویڈیوز منظر عام پر آئی جس میں وہ عمران خان پر حملے کا اقرار کر رہے ہیں۔
بعد ازاں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے ’فائرنگ کرنے والے ملزم کا ویڈیو بیان لیک کرنے کے واقعے کا سخت نوٹس‘ لیتے ہوئے متعلقہ پولیس عملے کو معطل کر کے ان کے موبائل فرانزک کی غرض سے ضبط کر لیے ہیں۔ جبکہ آر پی او گجرات کے مطابق ’ملزم کو حراست میں لیا گیا ہے، اور فی الحال کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔‘
نوید احمد ’زیادہ تر خاموش رہتا تھا‘
سوہدرہ دریائے چناب کے کنارے پر آباد ہے۔ یہ گنجان آبادی کا قصبہ ہے۔ خیال ہے کہ اس قصبے میں قریب ہر خاندان میں سے کم از کم ایک فرد ملک سے باہر روزگار کی خاطر مقیم ہے۔
نوید احمد کا بڑا بیٹا لگ بھگ ڈیڑھ برس کا ہے جبکہ چھوٹا بیٹا محض دس دن پہلے پیدا ہوا تھا۔
یہ جس گھر میں رہائش پذیر ہیں، وہ اُن کے والدہ کا وراثتی گھر ہے جو نوید کے حصے میں آیا۔ مقامی صحافی عقیل احمد لودھی کے مطابق ’ملزم نے اپنے بھائیوں کو حصہ دے کر، یہ گھر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔‘
نوید احمد کے والد محمد بشیر کی لگ بھگ پندرہ سال پہلے وفات ہوگئی تھی۔ نوید احمد آرائیں فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد نلکے لگانے (بورنگ) اور کباڑ کا کام کرتے تھے۔
ان کے باقی بھائی بھی اپنے والد کا چھوڑا کام کر رہے تھے۔ نلکے لگانے کا کام چونکہ تھوڑا جدید ہوگیا ہے تو بورنگ کے لیے یہ لوگ اب مشینوں کا استعمال کرتے ہیں۔ نوید احمد چار، ساڑھے چار سال سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے رہے اور چند ماہ قبل ہی واپس آئے۔
ان کے ایک ہمسائے عبداللہ کے مطابق ’یہ چار، پانچ سال سعودی عرب میں مقیم رہا، وہاں محنت مزدوری کرتا تھا۔ واپس آ کر کوئی خاص کام نہیں کر رہا تھا۔ البتہ اپنے بھائی کے ساتھ بورنگ کے کام میں ہاتھ بٹاتا رہتا تھا۔اس کے علاوہ کاٹھ کباڑ کا کام بھی کر لیتا تھا۔‘
عبداللہ نے بتایا ہے کہ ’نوید احمد سنی بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کبھی کبھار مسجد میں نماز پڑھتا ہوا پایا جاتا تھا۔‘
جبکہ سوہدرہ ہی کے رہائشی خالد مجید کا کہنا تھا کہ ’اس کی فیملی مذہبی بالکل نہیں ہے۔ میں نے کبھی اس کو باقاعدہ طور پر نمازیں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔یہ عام سا روایتی مذہبی گھرانہ ہے۔‘
خالد مجید کے مطابق ’جب میں نے سُنا کہ اس نے فائرنگ کی ہے، تو حیران رہ گیا۔ کیونکہ یہ تو کسی کو تھپڑ تک مارنے والا بندہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔‘
ایک اور ہمسائے محمد اشرف سے جب یہ پوچھا گیا کہ آیا نوید احمد علاقے میں لڑنے جھگڑنے کی شہرت رکھتا تھا تو اُن کا کہنا تھا ’بالکل نہیں۔ کبھی کسی سے لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ جب بھی دیکھا تو مزدوری کرتے یا گھر ہی میں رہتے دیکھا۔
مقامی رہائشی خالد مجید کے مطابق ’یہ زیادہ تر خاموش رہنے والا بندہ تھا۔ لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑتا تھا۔‘
تاہم ایک ہمسائے نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ’اس کا مذہبی رجحان ایک خاص جماعت کی طرف محسوس ہوتا تھا۔ مقامی مسجد میں مذہبی تقریبات میں شرکت کرتا رہتا تھا۔‘
جبکہ محلہ مسلم آباد کے ایک رہائشی بابر حسین نے بتایا ’مجھے نہیں معلوم کہ اس کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہو۔ یہ عام سا بندہ تھا۔ آتے جاتے اس سے سلام دعا ہو جاتی تھی۔ سلام دعا سے زیادہ یہ کوئی بات چیت نہیں کرتا تھا۔ عام سا بندہ تھا، عام سے بندوں کے ساتھ زیادہ تر اُٹھنا بیٹھنا تھا۔‘
ایک اور رہائشی نے مقامی صحافی عقیل احمد خان لودھی کو بتایا ’ملزم نوید احمد کے گھر کے قریب ایک گھر میں ہاؤس آف ڈیفوڈلز سکول ہے جہاں چند دن قبل کوئی تقریب تھی جس میں موسیقی کا استعمال بھی کیا گیا تو نوید احمد اس بات پر سیخ پا ہوا اور سکول کی انتظامیہ سے اس کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔‘
اس سکول کی پرنسپل ایک خاتون ہیں جن سے صحافی عقیل احمد لودھی نے رابطہ کر کے واقعہ کی تصدیق چاہی تو رابطہ نہ ہو سکا۔ صحافی عقیل احمد لودھی کے مطابق ’سکول کی پرنسپل دوسرے محلے میں رہتی ہیں جبکہ ملزم کی فیملی کے زیادہ تر لوگ یا تو پولیس پکڑ کر لے گئی یا وہ فرار ہو چکے ہیں۔‘
محلے داروں نے جمعرات یا بدھ کو کوئی مشکوک سرگرمی دیکھی؟
ملزم نوید احمد کے متعدد محلے داروں سے یہ پوچھا ’آج یا گذشتہ کل کسی نے ملزم کو عمران خان کے خلاف بات کرتے ہوئے سُنا ہو یا کسی ایسی سرگرمی میں دیکھا ہو، جو معمول سے ہٹ کر اور مشکوک ہو؟‘
مگر تمام لوگوں کی طرف سے ایک ہی جواب ملا ’کسی نے اُس کو نہ تو عمران خان اور نہ ہی تحریکِ انصاف کے جلسے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سنا اور نہ ہی کسی مشکوک سرگرمی میں ملوث پایا۔‘
سوہدرہ کے مقامی رہائشی خالد مجید نے ہمیں بتایا کہ ’اِس وقت رات کے دس بج چکے ہیں۔ میرے ڈیرے پر پانچ سے سات لوگ بیٹھے ہیں جن کی گفتگو کا موضوع یہی ہے کہ آج یا گذشتہ روز کسی نے ملزم کو عمران خان اور لانگ مارچ سے متعلق غصہ یا ناگواری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا ہو؟ سب لوگ اس حوالے سے بالکل لاعلم اور میری طرح حیران ہیں۔‘
مبینہ ملزم نوید احمد پر فائرنگ کے دوران انھیں روکنے والے پی ٹی آئی کارکن ابتسام احمد کے بھائی ضرغام علی نے ہم سے بات کرتے ہوئے بتایا ’جس ملزم کا بیان سوشل میڈیا پر چل رہا ہے، یہ نوید احمد ہی ہے اور اِس کو میرے بھائی نے پکڑا تھا۔ مگر اُس وقت نوید احمد نے جیکٹ پہن رکھی تھی اور بیان دیتے ہوئے وقت جیکٹ اُتار دی گئی تھی۔‘
ابتسام نے مقامی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ کنٹینر سے قریب 15 فٹ کے فاصلے پر تھے جبکہ نوید ان سے دائیں جانب قریب 10 فٹ کے فاصلے پر تھے۔ ’جیسے ہی اس نے شلوار میں ہاتھ ڈالا اور پستول نکالی تو میرا دھیان پڑ گیا۔۔۔ ایک سیکنڈ کے لیے اس کا ہاتھ کنٹینر کی طرف ہوگا، میں نے بھاگ کر اس کا ہاتھ ہٹایا تاکہ گولی کنٹینر سے ہٹ جائے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ نوید کے پاس آٹومیٹک ہتھیار تھا کیونکہ انھیں بیچ میں لوڈ نہیں کرنا پڑا۔