ایک عام شخص جاسوس یا ڈبل ایجنٹ سے فلموں یا ڈراموں کی حد تک واقف ہوتا ہے۔ جس میں جاسوس کو انتہائی بہادر، چالاک اور کئی دیگر خوبیوں کا حامل دکھایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ افسانوی طو پر ایک جاسوس کی زندگی کردار سے کہیں بڑھ کر اور بہتر دکھائی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت میں جاسوس کی زندگی خطرات اور ایڈونچر سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس میں موت اور زندگی واقعتاً ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
جاسوس ہر ملک کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ خصوصاََ ایسے ممالک جنہیں بیرونی خطرات یا لڑائیوں کا سامنا رہتا ہے۔ عام طور پر جاسوس اپنا کام پیسے کے لیے یا جذبہ حب الوطنی کے تحت کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں انہیں بہ یک وقت ہیرو اور ولن کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔
آئیے ذرا ایک نظر ڈالتے ہیں کہ تاریخ کے دس مشہور ترین جاسوس کون تھے جنہوں نے اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے جان لڑا دی اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئے۔
بیلے بائڈ کے نام سے بھی مشہور ازابیلا بائڈ نے امریکہ کی سول وار کے دوران اتحادیوں کے لیے جاسوس کا کردار ادا کیا۔ اس نے اپنے والد کے ہوٹل کو اپنی سرگرمیوں کے لیے صدر دفتر کے طور پر استعمال کیا۔ وہ وہیں بیٹھ کر کنفیڈریٹس کے لیے تمام آپریشنز سر انجام دیتی رہی۔ یہاں تک کہ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اسے ان خدمات پر جنوبی ہلال امتیاز کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔
ازابیلا کو 1862 میں گرفتار کیا گیا۔ تقریباً ایک ماہ قید رکھنے کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ رہا ہونے کے بعد انہوں نے انگلستان کا رخ کیا۔ اور بالآخر 1900 میں وفات پائی۔
ناتھن ہیلے کو امریکی تاریخ کا پہلا جاسوس قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے کہے مشہور عالم الفاظ۔۔۔
“مجھے افسوس ہے کہ اپنے وطن پر قربان کرنے کے لیے میرے پاس صرف ایک زندگی ہے”
آج بھی حوالے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ الفاظ اس نے پھانسی کے گھاٹ پر چڑھتے وقت ادا کیے تھے۔
ہیلے نے امریکہ کی انقلابی جنگ کے دوران کانٹی نینٹل فوج کے کپتان کے طور پر فرائض سرانجام دیے۔ اس دوران اسے برطانیہ میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ لیکن جلد ہی وہ برطانوی فوج کے ہتھے چڑھ گئے۔ جنہوں نے جاسوسی کے جرم میں اسے صرف اکیس سال کی عمر میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔
کہا جاتا ہے کہ پوپوف ہی وہ جاسوس تھیں جن سے متاثر ہو کر ایان فلیمنگ نے جیمز بونڈ جیسا مشہور عالم کردار تخلیق کیا۔ سربیا میں پیدا ہونے والی پوپوف نے دوسری جنگ عظیم کے دوران MI16 نامی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کیا۔
کہا جاتا ہے کہ پوپوف نے امریکہ کو جاپان کی جانب سے پرل ہاربر حملے سے پیشگی خبردار کر دیا تھا۔ لیکن اس کی اطلاع کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ جس کا خمیازہ امریکہ کو پرل ہاربر کی ہزیمت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ پوپوف نے سال 1968 میں وفات پائی۔
جرمنی میں پیدا ہونے والے کلاس فش کو “مین ہٹن پراجیکٹ” کی معلومات سوویت یونین کو فراہم کرنے کا زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلے ابتدائی طور پر برطانیہ کے ایٹم بم بنانے کے پراجیکٹ میں کام کیا۔ بعد میں مین ہٹن منصوبے میں جاسوس کے طور پر شمولیت اختیار کی۔
کلاس فش کو 1950 میں گرفتار کر کے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اپنی اسیری کے دوران انہوں نے برطانوی خفیہ اداروں کو کئی اہم معلومات فراہم کیں۔
تاریخ کی مشہور ترین جاسوس ماتا ہری پیرس میں ایک رقاصہ اور طوائف کے طور پر کام کرتی تھی۔ اسے جاسوسوں کی ملکہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اپنے پیشے کے باعث اسے حکمران طبقے اور اشرافیہ تک باآسانی رسائی حاصل تھی۔ اس سہولت کا استعمال کرتے ہوئے ماتاہری نے بہت ہی اہم معلومات حاصل کیں۔ بالآخر 1917 میں فرانسیسی انٹیلیجنس نے اسے گرفتار کر لیا اور جنگ عظیم اول کے دوران جرمن جاسوس کے طور پر کام کرنے کی پاداش میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔
جولیس اور ایتھل روزن برگ، امریکی کمیونسٹ تھے جنہوں نے سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے لیے کام کیا۔ انہیں امریکہ کی نیوکلیائی معلومات کو سوویت یونین تک پہنچانے کا زمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔
جولیس نے کے جی بی کو 1942 میں جوائن کیا۔ وہ ایجنسی کی ٹاپ جاسوس سمجھا جاتا تھا۔ اس نے اپنی بیوی اور سالے سارجنٹ ڈیوڈ گرین گلاس کے ساتھ مل کر امریکی کی خلائی اور نیوکلیائی تحقیق کے متعلق معلومات کو کے جی بی کو فراہم کیا۔ تاہم بعد میں ڈیوڈ نے یہ راز افشاء کر دیا۔ جس کے نتیجے میں روزن برگز جوڑے کو گرفتار کر کے پھانسی دے دی گئی۔
ایلڈرچ امریکی ادارے خفیہ ادارے سی آئی اے کا افسر تھا جس نے سوویت یونین کے لیے جاسوس کا کردار ادا کیا۔ اس نے اپنی شاہانہ طرز زندگی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے ادارے کے سو سے زائد ایسے افراد کی فہرست کے جی بی کو مہیا کی جو کہ سوویت یونین میں جاسوسی کر رہے تھے۔
سی آئی اے نے اپنے جاسوس یکے بعد دیگرے غائب ہونے پر تحقیق کی تو کھرا ایلڈرچ تک جا نکلا۔ جسے گرفتار کر کے تا عمر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا۔
یہ دراصل سوویت جاسوسوں کا ایک گروہ تھا جنہوں نے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران کام کیا۔ انہیں کیمرج فائیو کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کیونکہ کہ یہ سب کے سب مارکسزم نظریات کے پیروکار تھے اور سب نے مل کر کیمرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔
گروپ میں سے ایک مشہور جاسوس کا نام کم فلبی تھا جس نے سوویت یونین میں کام کرنے والے برطانوی جاسوسوں کے بارے میں خبر دی تھی۔ جس کے بعد انہیں یکے بعد دیگرے مار دیا گیا تھا۔ گروپ کے دیگر ارکان میں ڈونلڈ مکلین، گائے برگس اور انتھونی بلنٹ شامل ہیں۔ آخر الذکر کی کبھی شناخت نہیں ہو سکی تھی۔
روس میں پیدا ہونے والے سڈنی ریلے کو “جاسوسی کا اکا” بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے کئی ممالک کے لیے جاسوسی کی اور بہت ہی شاہانہ زندگی بسر کی۔ اس کی بڑی وجہ شہرت لینن کو قتل کرنے کے لیے پلان تیار کرنا تھا۔ گو کہ یہ پلان ناکام ہو گیا تھا لیکن ریلے بڑی مہارت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
دوسری بار جب ریلے نے سوویت حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو قسمت نے اس کا ساتھ نا دیا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پوپوف کی مانند ریلے کو بھی جیمز بونڈ کا محرک سمجھا جاتا ہے۔
رچرڈ سورج تاریخ کا مشہور ترین جاسوس ہے۔ جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران سوویت یونین کے لیے جاسوسی کا کام سر انجام دیا۔ اس نے جاپان کو اپنا پلے گراؤنڈ بنایا اور جتنی و جاپان کی جانب سے سوویت یونین کے خلاف تیار کیے جانے والے پلانز کا سراغ لگا کر سوویت یونین کو خبردار کیا۔ تاہم 1941 میں اسے جاپانی حکومت نے گرفتار کر کے سزائے موت کا اعلان کر دیا۔ رچرڈ کو سوویت یونین کی جانب سے ہیرو آف سوویت یونین کا اعزاز بھی دیا گیا۔