ادب کی تخلیق کے لیے جیل یا قیدخانہ کوئی آئیڈیل جگہ نہیں ہے۔ البتہ حیران کن طور پر ادب کی دنیا کے کئی شاہکار ایسی ہی جگہوں پر تخلیق ہوئے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ قید کی حالت میں مصنف کے پاس بے تحاشہ وقت دستیاب ہوتا ہے۔ اس لیے چار دیواری میں قید ہو کر بھی لکھنا وقت کا بہترین مصرف ثابت ہوتا ہے۔ ایسے میں تخلیقی خیال بھی انسان کے ذہن کو جلا بخشتے ہیں۔
اس مضمون میں ہم آپ کو ایسے ہی دس ادبی فن پاروں کے بارے میں بتائیں گے جنہیں مصنفین نے مقید حالت میں تحریر کیا اور ادب کی دنیا میں اپنی منفرد شناخت قائم کی۔
جین جینیٹ ایک فرانسیسی مصنف تھا جسے غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے اکثر جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کر دیا جاتا تھا۔ ایک بار اسے چوری کرنے پر قید کی سزا دی گئی تو اس نے اپنے عرصہ قید میں معروف ناول Our Lady of the Flowers کو تصنیف کیا۔ 1943 میں شائع ہونے والے اس ناول میں پیرس کی زیرزمیں دنیا کی ملکہ کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ اس ناول کی وجہ شہرت مصنف کا آپ بیتی جیسا انداز اور شاعرانہ طرز تحریر ہے جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس ناول کا پیش لفظ معروف مصنف جین پاؤل سارترے نے تحریر کیا۔
آئرش مصنف کو لارڈ ڈگلس کے ساتھ تعلقات منظر عام پر آنے کے باعث دو سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں سہتے دوران آسکر وائلڈ نے وقت گزاری کے لیے اپنے ڈگلس کے لیے خط لکھنا شروع کر دیا۔ یہ خط کبھی بھی اپنی منزل تک تو نا پہنچ سکا البتہ مصنف کی وفات کے بعد شائع ضرور ہو گیا۔ یہ طویل خط آسکر وائلڈ کی دیگر تمام تحاریر سے منفرد اور انتہائی سنجیدہ طرز تحریر کا حامل ہے جس میں مصنف نے اپنی شخصیت کے کئی اسرارورموز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی۔
آسٹرین فلاسفر لڈوگ کی جانب سے سائنس و حقیقی دنیا کے بارے میں لکھے گئے یہ فکر انگیز خیالات، اس قید کے دوران رقم ہوئے جب وہ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی قید میں تھا۔ اس کے مرتب کردہ کام کو بیسویں صدی کی سب سے فکر انگیز فلسفیانہ تحاریر میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ وٹگنسٹائن آسٹریو۔ہنگرین فوج میں سپاہی کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ اس دوران اسے 9 ماہ تک کا عرصہ اتحادیوں کی قید میں گزارنا پڑا جہاں اس نے یہ ادبی فن پارہ تخلیق کیا۔
“ہر طرف ناانصافی، ہر طرف انصاف کے لیے خطرہ ہے”
یہ گہرا اور فلسفیانہ جملی مارٹن لوتھر کنگ کی تخلیق ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنا بڑا مصنف تھا۔ یہ الفاظ مارٹن کے مضمون سے لیے گئے ہیں جسے اس نے 1963 کی نو روزہ قید کے دوران لکھا تھا۔ اسے الباما کے نسلی امتیاز کے خلاف تحریک چلانے پر قید کی سزا دی گئی تھی۔ خطوط پر مشتمل یہ مضمون انسانی حقوق کی تحاریک کے لیے آج بھی ایک علامت اور ستون خیال کیے جاتے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے خلاف جدوجہد کرنے والے سیاہ فام افریقی نیلسن منڈیلا کی تحریک کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ جس میں سے اکثر حصہ اس نے قید و بند کی صعوبتوں میں گزارا۔ اسی قید کے دوران منڈیلا نے اپنی خودنوشت 6. Conversations with Myself کے نام سے تحریر کی۔ جو کہ اس کی ڈائری اور خطوط کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کتاب کو 1994 میں شائع کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہی تحاریر آگے چل کر منڈیلا کی مشہور عالم تصنیف Long Walk Freedom کی بنیاد بنیں۔
سر والٹر ریلف بہ یک وقت ایک مصنف،تاجر اور سیاح تھے۔ وہ برطانوی ملکہ الزبتھ اول کے خاص ترین درباریوں میں سے بھی تھے۔ لیکن بعد میں انہوں نے اپنی وفاداری بدل لی۔ انہیں غداری کے جرم میں قید کی سزا سنائی گئی۔ لندن ٹاور میں 13 سالہ قید کے دوران انہوں نے تاریخ عالم نامی کتاب لکھی۔ یہ کتاب تاحال نامکمل اور متنازعہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بہت ہی اہم تحقیقی کام ہے۔ بعد میں والٹر رالف کو ایک مشن کی تکمیل کے لیے رہا کیا گیا جو کہ ناکام رہا۔
وینیشین تاجر مارکوپولو مشرق بعید کی 24 سالہ سیر کے بعد واپس آیا تو اسے حریف ملک سے جنگ کے دوران قید کر لیا گیا۔ عرصہ اسیری میں اس نے اپنے قیدی ساتھیوں کو سفر کی کہانیاں سنائیں۔ جیل میں اس کے ایک ساتھی پیسا نے رہا ہو کر مارکوپولو کی تمام کہانیوں کو کتابی شکل دے کر شائع کروایا۔ یہ کتاب بہت جلد ہی یورپ بھر میں مشہور ہو گئی اور اس کی بناء پر کئی یورپی ممالک نے مشرق کی جانب مہمات اور طائفے بھجوائے۔
شاہ آرتھر اور اس کی گول میز کے قصے انگریزی ادب میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔اس سلسلے میں سب سے مشہور اور نمایاں کام سر تھامس میلوری کا ہے۔ تھامس میلوری کو کئی مقدمات کا سامنا تھا۔ اس سلسلے میں وہ لندن میں قید بھی رہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے کنگ آرتھر کے لیجنڈز پر کتاب لکھی جسے کافی شہرت ملی۔
ادب کی دنیا میں تخلیقی کاموں میں سے ایک یہ کتاب مشہور علحیدگی پسند تبلیغی جان بنیان کی جانب سے تحریر کی گئی۔ یہ کتاب انہوں نے اس عرصہ اسیری میں لکھی جب شہنشاہیت کی جانب سے انہیں نفرت انگیز تقاریر کرنے پر قید کر دیا گیا تھا۔ یہ اسیری اور کتاب کی تصنیف بارہ سال پر محیط ہے جو انہوں نے بیڈفورڈ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ جان بنیان کا یہ کام 1678 میں شائع ہوا۔
بوئتھئیس ایک اطالوی فلاسفر تھے جو کہ چھٹی صدی عیسوی میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے وقت کے معروف شخصیت تھے لیکن ریاست کی مخالفت مول لینے کی وجہ سے زیر عتاب آ گئے۔ انہوں غداری کے الزام میں موت کی سزا سنا کر جیل میں بھیج دیا گیا۔ اپنی زندگی کے آخری پلوں کا شمار کرتے انہوں نے 1. Consolations of Philosophy کو تصنیف کیا۔ یہ کتاب متفقہ طور پر حالت اسیری میں لکھی جانے والی دنیا کی بہترین کتاب اور ادبی تخلیق مانی جاتی ہے۔ اس میں مصنف اور ایک فلاسفر خاتون کے درمیان مکالمے کو تحریر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب قرون وسطی کی مشہور ترین کتابوں میں سے ایک تھی اور بہت سے نئے مصنفین کے لیے تحریک کا باعث بنی۔