اکیسویں صدی کا بلاشبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی قرار دیا جا سکتا ہے۔ نئے ہزاریے کی ابتداء کے ساتھ ہی مصنوعی ذہانت، ورچؤل ریالٹی اور روبوٹکس جیسی جدید ٹیکنالوجیز نے اپنے قدم جمانے شروع کر دیے ہیں۔ جو کہ کبھی سائنس فکشن سمجھے جاتے تھے۔
لیکن اس جدت کا ضمنی نقصان یہ ہے کہ اس کا اثر کئی ایسی ملازمتوں پر بھی پڑے گا جو عرصہ دراز سے انسانوں کے لیے روزگار کمانے کا اہم ذریعہ تھیں۔ اس مضمون میں ہم آپ کو ایسی دس ملازمتوں کے بارے میں بتائیں گے جو آئندہ بیس سالوں میں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی۔ اور انہیں سرانجام دینے کے لیے انسانوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
حال ہی میں آپ نے اوبر اور کریم جیسی سروسز کے ٹیکسی ڈرائیورز کے ساتھ جھگڑوں کے متعلق سن رکھا ہو گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس شعبہ میں جدت آتی جا رہی ہے۔ بغیر ڈرائیور کی کاروں کو بھی تجرباتی طور پر متعارف کروایا جا رہا ہے۔ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے۔ آنے والے دور میں ٹیکسی ڈرائیورز ناپید ہو جائیں گے۔
کتابوں سے بھرے ہوئے ریکس، اوراق کی خوشبو اور دنیا جہان کی معلومات سے لیس لائبریری، وہ جگہ ہے جہاں کوئی بھی انسان کئی کئی گھنٹے گزارنا چاہے۔ ہر لائبریری میں موجود لائبریرین ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے جس کے اپنی زندگی کے کئی سال وہیں گزارے ہوتے ہیں۔ اسے ہر کتاب اور اس میں موجود مواد کا پتہ ہوتا ہے۔ یوں لائبریری میں آنے والوں کے لیے ہر مشکل اور تلاش میں مسیحا بن کر سامنے آتی ہے۔
لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے کتب بینی کے رحجان میں کافی کمی آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مطالعہ کے لیے برقی آلات کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً کتابوں کی قیمت میں بھی کمی ہوئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ معلومات کو مختلف آن لائن ذرائع سے حاصل کرنے کی سہولت نے بھی کتب بینی اور ایک کتاب سے چمٹے رہنے کی عادت کی حوصلہ شکنی کی ہے۔
ان تبدیلیوں کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں کتاب پڑھنے کے لیے ایک مخصوص دفتر اور لائبریرین کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ٹیکنالوجی نے ہمیشہ سے ہی کیشئرز کو ان کا کام بٹانے میں مدد کی ہے۔ عام کیلکولیٹر سے لے کر جدید اکاؤنٹنگ سافٹ وئیرز تک ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نے حسابی کام کو آسان کیا ہے۔ لیکن اب ترقی کی یہ رفتار اتنی تیز ہو گئی ہے کہ بذات خود کیرئیر کی ملازمت کو ہی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
گاہکوں کی خریدوفروخت کا حساب کتاب رکھنے والی خودکار مشینوں نے دکانوں اور چھوٹے کاروباروں میں خزانچی کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔ گاہک دکان میں موجود کسی بھی شے کو اٹھا کر برقی ڈیوائس کے سامنے سے گزار سکتے ہیں۔ جو اس پر موجود RFID بارکوڈ کو پڑھ کر خودکار طریقے سے بل بنا سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ برقی کانٹوں نے وزن اور مقدار کو ماپنے کا کام بھی آسان کر دیا ہے۔ اب ایسی ٹیکنالوجیز کا گلا ہدف بڑے کاروبار اور ادارے ہیں۔
بینک عملے کا بنیادی کام نئے کھاتوں کو کھولنا اور پرانے کھاتوں کو حساب کتاب رکھنا ہوتا ہے۔ اس شعبے میں میں بھی اب ٹیکنالوجی کا کردار بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ بینک صارفین اب انٹرنیٹ کے ذریعے باآسانی اپنے کھاتوں کا حساب رکھ سکتے ہیں اور انہیں کنٹرول کر سکتے ہیں۔ حتی کہ چیک کے متعلق خدمات بھی اب اسمارٹ فونز کے ذریعے انجام دی جا سکتی ہیں۔ اور آپ گھر بیٹھے اپنے یا کسی دوسرے شخص کے کھاتے میں رقوم کو منتقل کر سکتے ہیں۔
گئے وقت کے بات کی بات ہے جب اخبارات ہر گھر کی زینت ہوا کرتے تھے۔ اب پرنٹ اخبارات صرف دفاتر میں ہی پڑھے جاتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر گھریلو اور انفرادی صارفین اپ اخبارات کے پرنٹ کی بجائے ان کے آن لائن ورژن کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے میگزین بھی مخصوص فیسں کے عوض آن لائن ایڈیشنز میں دستیاب ہیں۔ اسی لیے اب اخبارات کے ہاکرز اور ان کے فروخت کنندگان کی تعداد دن بدن گھٹتی جا رہی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک ہر کاروبار میں سیکرٹریز رکھنا ایک مجبوری تھی۔ اب یہ ایک لگزری سہولت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ مستقبل قریب میں سیکرٹریز رکھنا پیسے کا ضیاع سمجھا جائے گا۔ کیونکہ اب کئی ایسی فون ایپلیکیشنز دستیاب ہیں جو کہ روزمرہ کاموں کی فہرست بنانے سمیت دیگر کاموں کو ترتیب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
کتنا عرصہ ہوا آپ نے لفظ ڈاکیا سنا ہو گا؟ یہ اب گزرے وقت کی بات ہے جب ہر کسی کو ڈاکیے کے آنے کا انتظار رہا کرتا تھا۔ کیونکہ دوردراز بسنے والے اپنے پیاروں سے رابطے کا واحد خط و کتابت ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب اس کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ موبائل، ٹیکسٹ میسج اور ای میل وغیرہ آنے سے اب روایتی ڈاک کی ضرورت نہیں رہی۔ محدود پیمانے پر اشیاء وغیرہ کی ترسیل میں یہ ملازمت اب بھی جاری ہے لیکن ڈیلیوری روبوٹ کے آنے سے یہ استعمال بھی ختم ہر کر رہ جائے گا۔
عام طور پر آپ کو کسی کمپنی سے معلومات درکار ہوں تو آپ اس کی کسٹمر سروس کا کال کرتے ہیں۔ جس کے جواب میں آپ کو درکار معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن اس شعبہ میں خودکار جواب دہی جیسی سروسز عملی طور لاگو ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ جن میں ایک بوٹ یا سافٹ وئیر آپ کو عمومی معلومات فراہم کرتا ہے۔ جبکہ مزید کسی مسئلہ کی صورت میں آپ کا رابطہ متعلقہ ممبر سے کروا دیا جاتا ہے۔ ٹیلی کام شعبے میں ایسی خدمات متعارف کروائے جانے کے بعد کسٹمر سروس بھی قصہ پارینہ بن جائے گی۔
انٹرنیٹ کی سہولت کے بعد کسی ائیر لائن کے ٹکٹ خریدنے یا ہوٹل کی بکنگ کروانے کے لیے ٹؤر کمپنی کے دفتر جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ گھر بیٹھے یہ کام کر سکتے ہیں۔ دن بدن بڑھتی ویب سائٹس اور ایپس کے باعث آپ کہیں بھی جانے کے لیے تمام کام انٹرنیٹ پر ہی کر سکتے ہیں۔ اس لیے مستقبل میں ٹور کمپنی کے لیے باقاعدہ ملازمین رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
لڑاکا پائلٹ تیار کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت، وسائل اور افرادی قوت درکار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ اس میں قیمتی جانوں کے ضیاع کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر کی حکومتیں ایسے طیاروں پر کام کر رہی ہیں جنہیں دور بیٹھ کر بھی بذریعہ سیٹلائٹ باآسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والی روئداد کے مطابق مستقبل میں بغیر پائلٹ لڑاکا طیاروں اور دیگر جہازوں کو دوسرے براعظموں پر بھی بغیر پائلٹ نا صرف بھیجا جا سکے گا بلکہ ان سے اسی میعار کا کام لیا جا سکتا ہے جیسا کہ روایتی طیاروں سے لیا جا سکتا تھا۔