مسجد مسلمانوں کے لیے عبادت اور نماز ادا کرنے کے لیے مختص جگہ ہے۔ اسلام میں مساجد کا آغاز جزیرہ نمائے عرب سے ہوا۔ جس کے بعد یہ سلسلہ اسلام کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلتا گیا۔ اور اس وقت یہ مساجد دنیا کے تمام گنجان آباد براعظموں پر موجود ہیں۔
ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے پاکستان بھی اسلامی ثقافت خصوصاً مساجد کے حوالے سے کافی مشہور ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نا ہو گا کہ مساجد ملک کے طول و عرض میں عمومی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ اور ہر چھوٹے بڑے مقام حتی کہ غیر آباد علاقوں میں بھی موجود ہیں۔
ان مساجد میں سے بعض اپنے تعمیری ڈھانچے اور تاریخ کے باعث بہت مقبول ہیں۔ صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی ان مساجد کی خوبصورتی اور جاہ و جلال کے معترف ہیں۔ اس مضمون میں ہم آپ کو پاکستان کی دس ایسی ہی مشہور ترین مساجد کے بارے میں بتائیں گے۔
پاکستان کی دس مشہور ترین مساجد یہ ہیں۔
سنہری مسجد برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے فن تعمیر کی خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سنہری گنبد اور بڑے میناروں پر مشتمل اس مسجد کو سید بخاری خان نے 1735 میں تعمیر کروایا۔ سید بخاری مغلیہ سلطنت کی جانب سے لاہور کے گورنر مقرر کیے گئے تھے۔
موتی مسجد سترھویں صدی کی شاندار عمارت ہے جسے قلعہ لاہور کے اندر تعمیر کیا گیا تھا۔ سفید سنگ مرمر سے تیار کردہ یہ ایک چھوٹی لیکن حسین مسجد ہے جسے مغل بادشاہ شاہجہان نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ لاہور کی خوبصورت ترین عمارات میں سے ایک ہے۔
ملتان۔لاہور ہائی وے پر شہر کے شمال مشرق میں واقع یہ مسجد ملتان کی بڑی جامع مسجد ہے۔ اسے مغلوں کی جانب سے ملتان میں متعین کردہ گورنر نواب عبد الصمد خان نے 1735 عیسوی میں تعمیر کروایا۔ یہ ایک بڑے صحن اور نماز کے لیے وسیع جگہ پر مشتمل مسجد ہے۔ اس کے سات گنبد خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کی بیرونی دیواروں پر نیلی ٹائلز کا استعمال کیا گیا ہے جبکہ اندرونی طور پر مختلف رنگوں سے پچی کاری کی گئی ہے جو کہ مسجد کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے۔
لاہور میں واقع مسجد وزیر خان اپنے ٹائل کے بہترین کام کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اسے لاہور کے چہرے کا تل بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اسے مغلیہ سلطنت کے فرمانروا شاہجہان کے عہد میں سات سالوں کے دوران تعمیر کیا گیا۔ اندرون شہر میں واقع اس مسجد تک دہلی دروازے کے ذریعے رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ مسجد مغلیہ عہد کے مشہور قشانی ٹائل ورک اور فن تعمیر کا حسین نمونہ ہے۔
سترھویں صدی میں تعمیر کردہ یہ مسجد خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں واقع ہے۔ اس مسجد کا نام مغلیہ عہد میں پشاور کے گورنر نواب محبت خان کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے شاہجہان اور اورنگزیب کے ادوار حکومت میں پشاور میں اپنے فرائض منصبی ادا کیے۔
وسیع احاطے پر مشتمل اس مسجد کے بیچوں بیچ وضو کرنے کے لیے پانی کا تالاب بنایا گیا ہے۔ جبکہ چہار جانب کمروں کی قطاریں ہیں۔ غربی طرف نماز کے لیے بڑا ہال تعمیر کیا گیا ہے جس کے گردا گرد دو مینار ایستادہ ہیں۔ اس کے اوپر تین چھوٹے گنبد نصب کیے گئے ہیں جبکہ اندرونی دیواروں پر جومیٹرک اشکال کی حسین کندہ کاری کی گئی ہے۔
یہ مسجد جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے قصبے بھونگ میں تعمیر کی گئی ہے۔ قصبے کے نام کی مناسبت سے اس مسجد کا نام بھی بھونگ مسجد رکھا گیا ہے۔ اسے 1932 سے 1985 کے درمیان تقریباً پچاس سالوں میں تعمیر کیا گیا۔ اسے 1986 میں آغا خان ایوارڈ برائے فن تعمیر دیا گیا جبکہ 2004 میں ستارہ امتیاز کا اعلان بھی کیا گیا۔
یہ مسجد اپنی شاندار فن تعمیر اور بہترین کیلی گرافی کے باعث اپنی مثال آپ ہے۔ اس میں سنہری پتیوں اور نمائشی پچی کاری کا استعمال اس مہارت سے کیا گیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اسی بناء پر یہ مسجد پاکستان کی مشہور ترین مساجد میں سے ایک ہے۔
کراچی میں واقع مسجد طوبیٰ کو مقامی طور پر گول مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ اسے 1969 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یکتا اور واحد بڑے گنبد پر مشتمل یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کو خالص سفید سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا ہے۔
اس کا گنبد 72 میٹر یعنی تقریباً 236 فیٹ قطر پر مشتمل ہے۔ جسے گولائی میں چھوٹی دیواروں سے سہارا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ توازن کے لیے کسی مرکزی ستون کو تعمیر نہیں کیا گیا۔ مسجد طوبیٰ کا واحد مینار 70 میٹر بلند ہے۔ مرکزی ہال میں 5000 نمازیوں کی گنجائش کے ساتھ یہ دنیا کی 18 ویں بڑی مسجد ہے۔ اسے پاکستانی ماہر تعمیرات ڈاکٹر بابر حمید چوہان اور انجینئر ظہیر حیدر نقوی نے ڈیزائن کیا تھا۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں واقع شاہجہان مسجد کو 1647 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسے مغلیہ سلطنت کے فرمانروا شاہجہان نے سندھ باسیوں کے لیے جذبہ خیر سگالی کے طور پر تعمیر کروایا۔ اسے سرخ اینٹوں اور نیلگوں مائل ٹائلز کی مدد سے تیار کیا گیا تھا جنہیں ممکنہ طور پر سندھ کے قصبے ہلالہ سے لایا گیا تھا۔
اس مسجد میں کل 93 گنبد تعمیر کیے گئے تھے۔ اسےانسانی ذہن کے سمیعاتی اصولوں کے مطابق بنایا گیا تھا۔ جس اگر ایک شخص ایک کنارے والے گنبد کے نیچے کھڑے ہو کر 100 ڈیسی بل کی آواز سے بات کرے تو اس کی آواز دوسرے کنارے پر موجود گنبد کے نیچے کھڑے شخص کو بھی باآسانی سنائی دے گی۔
لاہور میں موجود بادشاہی مسجد کو چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے 1671 سے 1673 عیسوی کے درمیان تعمیر کروایا۔ یہ جنوبی ایشیا اور پاکستان کی دوسری سب سے بڑی اور دنیا کی پانچویں سب سے بڑی مسجد ہے۔ مغلیہ دور کے جاہ و جلال اور شان و شوکت کی علامت یہ مسجد لاہور کے لیے ایک آئی کون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا باعث ہے۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد، جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی اور دنیا کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔ پاکستان کی اس مشہور ترین مسجد کو ترکی کے معروف ماہر تعمیرات ودات دالوکے نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس کی ہئیت صحرا میں نصب ایک خیمے کی مانند رکھی گئی تھی۔
سال 1986 میں تعمیر ہونے والی اس مسجد کو پاکستان کی قومی مسجد قرار دیا گیا ہے۔ اس کا نام سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبد العزیز کے نام پر رکھا گیا ہے جنہوں نے اس کی تعمیر کے لیے درکار مالی وسائل مہیا کیے۔ اور پورے پراجیکٹ کی نگرانی کی۔ اس مسجد میں روایتی گنبد کے ڈیزائن کو شامل نہیں کیا گیا۔ جبکہ اس کے پتلے میناروں کا ڈیزائن ترکی کے معروف فن تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔