کیمیائی عناصر ہمارے اردگرد موجود ہر شے کو بنانے کے لیے بلڈنگ بلاک کا کردار ادا کرتے ہیں۔ تاحال کل 118 عناصر دریافت کیے گئے ہیں جن میں سے 94 قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں جبکہ بقیہ مصنوعی طور پر تیار کیے گئے ہیں۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے عناصر میں لوہا، سونا، چاندی وغیرہ اور مصنوعی تیار کردہ عناصر میں کیوریم، کیلیفورنیم وغیرہ شامل ہیں۔
اس فہرست میں دس ایسے عناصر کے بارے میں بتایا گیا ہے جو کہ انتہائی نایاب ہیں۔ ان میں سے کچھ کی بازار میں بہت زیادہ مانگ ہے۔ کمیابی اور مانگ میں زیادتی کے باعث یہ دس عناصر دنیا کے مہنگے ترین عناصر کہلائے جاتے ہیں۔
سونا دنیا کا سب سے مشہور اور کمیاب عنصر ہے۔ اسے عام طور پر زیورات اور آرائشی اشیا میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سونے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ازمنہ قدیم سے لے کر آج تک تقریباً ہر تہذیب اس کی کمیابی اور قدرو قیمت سے آگاہ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی سونا بطور سکہ رائج الوقت زیر استعمال رہا ہے۔
سائنسی طور پر بھی یہ ثابت شدہ ہے کہ سونے میں پائی جانے والی خصوصیات اسے برقی استعمال کے لیے بہترین موصل بناتی ہیں۔ لیکن پیش قیمت ہونے کے باعث اسے برقی تاروں میں استعمال نہیں کیا جا سکتا جس کی وجہ سے اس کے متبادلات کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
خالص حالت میں سونا ایک چمکدار، نرم اور ریڈش رنگ کی دھات ہے۔ دنیا میں سونے کی طلب دیگر تمام عناصر سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کی مہنگی ترین دھاتوں میں دسویں نمبر پر موجود ہے۔
رہوڈیم کو سب سے زیادہ آٹو موبائل صنعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے سہ طرفہ کیٹالک کنورٹر میں بطور عمل انگیز استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی انحطاط اور “جارح” مرکبات کے خلاف مزاحمت ہے۔ اسے زیورات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص طور وائٹ گولڈ پر رہوڈیم کی پتلی تہہ چڑھانے سے اس کی چمک میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح چاندی کے سکوں پر اس کی تہہ چڑھانے سے یہ انہیں خراب ہونے سے بچاتی ہے۔
پلاٹینم بھی ایک بہت ہی کم متعامل دھات ہے۔ اس میں بلند درجہ حرارت پر بھی مستحکم رہنے کی صلاحیت ہے۔ اس کی کمیابی کا یہ عالم ہے کہ سالانہ صرف چند سو ٹن ہی پلاٹینم حاصل کی جا سکتی ہے۔ زیورات کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس کے دیگر کئی استعمالات ہیں جن میں آٹوموبائل، ڈینٹسٹری حتی کہ طب جیسے شعبہ جات شامل ہیں۔
لینتھینم ایک چاندی مائل دھاتی عنصر ہے۔ یہ اتنا نرم ہوتا ہے کہ آپ اسے دستی چاقو کی مدد سے باآسانی کاٹ سکتے ہیں۔ یہ زمین پر پائے جانے والے نایاب عناصر میں سے ایک بھی ہے۔ خالص حالت میں لینتھینم کسی خاص استعمال کے قابل نہیں ہوتا البتہ اس کی مدد سے تیار کیے گئے مرکبات کے کئی استعمالات ہیں۔
لینتھینم کی مدد سے تیار کیے گئے مرکبات کو بطور عمل انگیز استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فلم اسٹوڈیو میں کاربن سے بنی روشنیوں اور پروجیکٹرز میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ لائٹیرز، ٹارچ، اور الیکٹروڈز وغیرہ بھی لینتھینم کے مفید استعمالات میں سے ہیں۔ لیکن اتنے استعمالات اور نایابی اس عنصر کو دنیا کے مہنگے ترین عناصر میں سے ایک بناتی ہے۔
لیوٹیٹیم بھی کرہ ارض کے نایاب عناصر میں سے ایک ہے۔ لینتھینم کی بہ نسبت لیوٹیٹیم کے کمرشل استعمالات انتہائی کم ہیں۔ البتہ مستحکم حالت میں لیوٹیٹیم کو پٹرولیم ریفائنریز میں بطور عمل انگیز استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر استعمالات میں الکلیات، ہائیڈروجینیشن، اور پولیمرائزیشن شامل ہیں۔
سکینڈیم بھی زمین کے نایاب اور مہنگے ترین عناصر میں سے ایک ہے۔ 70 کی دہائی میں یہ دریافت ہوا کہ سکینڈیم دھاتی بھرتوں خصوصاً ایلومینیئم کے بھرت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ تب سے لے کر آج تک سکینڈیم دھاتی بھرتوں کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس وقت سکینڈیم آکسائیڈ کی سالانہ تجارت تقریباً 10 ٹن ہے۔ جبکہ اس کے ایک گرام کی قیمت 270 ڈالرز ہے۔
آپ یقیناً پلوٹونیئم کے نام سے واقف ہوں گے۔ کیونکہ اس کا سب سے بڑا استعمال جوہری ہتھیاروں میں ہوتا ہے۔ اور جوہری ہتھیار اس وقت ہر خاص و عام کا موضوع بحث ہیں۔
پلوٹونیم کے دونوں ہم جاء یعنی پلوٹونیئم 239 اور پلوٹونیئم 241 میں عمل انشقاق کی صلاحیت ہے۔ یعنی یہ سلسلہ وار جوہری ردعمل (نیوکلئیر چین ری ایکشن) کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ پلوٹونیئم ایک انتہائی تابکار عنصر ہے جس کی وجہ سے اس کا استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ اسے خریدنے کے خواہش مند ہیں۔۔۔ تو یاد رہے کہ اس کا ایک گرام 4000 ڈالر سے بھی زائد قیمت میں فروخت ہوتا ہے۔
کاربن زندگی کے لیے درکار ضروری ترین عناصر میں سے ایک ہے۔ گو کہ اس کی بڑی مقدار ہمارے جسم کے اندر ہی موجود ہے اور کوئلے و گریفائٹ کی صورت میں بھی کاربن زمیں پر وافر مقدار میں دستیاب ہے جو کہ اتنے مہنگے نہیں ہیں۔ لیکن اگر کاربن کے ایٹمز ایک مخصوص حالت میں تشکیل پا جائیں تو یہ دنیا کے قیمتی ترین عناصر میں سے ایک یعنی ہیرے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جس کا ایک گرام آپ کو 65 ہزار ڈالرز تک میں پڑ سکتا ہے۔
اس عنصر کو پہلی بار 1950 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ریڈی ایشن لیبارٹری میں کیوریم پر الفا ذرات کی “بمباری” کر کے مصنوعی طور پر تیار کیا گیا۔ اس کے بعد اس نو ایجاد کردہ عنصر کے صرف چند گرام ہی تیار کیے جا سکے۔
ایک گرام کیلیفورنیم کی قیمت تقریباً 27 ملین امریکی ڈالرز ہے۔ یہ خطیر قیمت یوں بھی سمجھ آتی ہے کہ کیلیفورنیم کی عالمی سطح پر پیداوار صرف نصف گرام سالانہ ہے۔
فرینشیم اتنا نایاب عنصر ہے کہ اس کا ایک گرام آج تک نہیں دیکھا جا سکا۔ کیونکہ اس عنصر کی نصف حیات صرف 22 منٹ پر محیط ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ اس کی کوئی بھی مقدار صرف چند لمحوں میں تبخیر کا شکار ہو جاتی ہے۔ البتہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ فرینشیم ایک فوری ردعمل دکھانے والی دھات ہے۔
اب تک فرینشیم کی سب سے بڑی مقدار جو کہ لیبارٹری میں تیار کی جا سکی ہے وہ 30 ہزار ایٹمز پر مشتمل ایک کلسٹر ہے۔ تاہم اگر کسی کو اس عنصر کا ایک گرام خریدنا ہو تو اسے چند ارب ڈالرز خرچ کرنا پڑیں گے۔ اور ہمارے خیال میں شاید ہی کوئی سرپھرا ایسا ہو جو ایک ایسے عنصر کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کرے جس کا کوئی فائدہ نہیں اور جو چند منٹوں بعد تحلیل بھی ہو جائے۔