انٹلانٹس نامی مشہور شہر کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ زمانہ قدیم میں یہ شہر بہت ترقی یافتہ تھا۔ لیکن سمندر برد ہو گیا۔ آج بھی اس شہر کو زیرسمندر تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ کہانی افسانے سے آگے نہیں بڑھ سکی نا ہی اس کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ البتہ زمین پر کچھ ایسے شہر حقیقت میں بھی ہیں جو پانی کی لہروں میں بہہ کر ہمیشہ کے لیے تہہ نشین ہو گئے۔ اور ان کے شواہد بھی موجود ہیں۔
اس مضمون میں ہم آپ کو زمانہ قدیم کے ایسے ہی دس شہروں کے بارے میں بتائیں گے جو اب سطح زمین پر نہیں بلکہ پانی کے نیچے پائے جاتے ہیں۔ ان کی باقیات اور آثار بھی دریافت ہو چکے ہیں۔
اس برازیلی شہر کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں انٹونیو نامی ایک مبلغ بستا تھا۔ جو دن رات تقاریر کر کے غریب عوام کو اشرافیہ کے خلاف بغاوت کرنے پر اکساتا تھا۔ اس کے نتیجے میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ روایات ہیں کہ جب یہ جدوجہد 5 اکتوبر 1897 کو اپنے انجام کو پہنچی تو شہر میں صرف ایک بچہ، ایک بوڑھا اور ایک نوجوان زندہ بچے تھے۔ بعد میں اس جگہ پر ایک بڑا ڈیم تعمیر کیا گیا۔ 1970 کی دہائی میں یہ ڈیم ٹوٹ گیا جس کے نتیجے میں ایک سیلاب نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آج بھی اس پورے شہر کی باقیات پانی تلے موجود ہیں۔
ویلز اٹلانٹک کے نام سے مشہور ٹائنلو ہیلگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آدھی حقیقت، آدھا افسانہ ہے۔ اس کی کہانی کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ یہاں کے حکمران کی بیٹی کو رعایا میں ایک غریب آدمی سے پیار ہو گیا۔ دونوں کو شادی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ بلآخر غریب شخص نے ایک پلان بنایا۔ اس نے ایک نہایت امیر آدمی کو اس کی بے خبری میں چھرا گھونپ کر مار ڈالا۔ اور اس کا سونے کا کالر چرا لیا۔ یہ کالر لے کر وہ حاکم کے پاس پہنچا اور دعوی کیا کہ اس نے یہ سونے کا کالر ایک بڑی لڑائی میں جیتا ہے۔ حاکم اس سے بہت خوش ہوا۔ اور اپنی بیٹی کی شادی اس بہادر شخص سے کر دی۔
شادی کی پہلی رات ہی امیر آدمی کا بھوت آیا اور نئے نویلے جوڑے کا ڈرانے لگا۔ یہ ڈراؤنا سلسلہ چلتا رہا۔ ہر روز پانی کی بڑی لہریں آتی اور جوڑے کے قیام والے قلعے کو تقریباً ڈبو کر رکھ دیتیں۔ رفتہ رفتہ یہ یہ عفریت قلعے پر غالب ہو گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آج بھی اس قلعہ نما عمارت کے اوپری حصے کبھی کبھار نظر آنے لگتے ہیں۔
امریکہ کی ڈیل ہالو جھیل کی گہرائیوں میں ڈوبا ہوا یہ قصبہ ولوو گرو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ اس کے گرد قسم ہا قسم کے درخت پائے جاتے تھے۔ اس قصبے میں ضروریات زندگی کی ہر چیز موجود تھی۔۔۔ چرچ، گراسری اسٹور، حتی کہ علاقے کا سب سے بڑا اسکول بھی قائم تھا۔
جنگ عظیم کے دوران قصبے کے زیادہ تر مرد محاذ پر چلے گئے اور وہیں مارے گئے۔ جلد ہی حکومت نے قصبے کی جگہ کے گرد ایک بڑا ڈیم تعمیر کیا۔ جس سے آنے والے سیلاب سے یہ قصبہ زیرآب چلا گیا۔ آج بھی جھیل کے شفاف پانیوں سے قصبے کی باقیات جھلکتی ہیں۔
ڈن وچ ایک ساحلی شہر تھا۔ کسی زمانے میں یہ جگہ ایک مذہبی مقام کے طور پر سمجھی جاتی تھی جہاں عیسائی صلیبی جنگوں میں حصہ لینے کے لیے جمع ہوتے تھے۔ آج کل یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کی کل آبادی 100 افراد سے بھی کم ہے۔ کسی زمانے میں یہ انگلینڈ کا سب سے بڑا شہر تھا اور اس کا رقبہ لندن کے تقریباً برابر تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اس کے مختلف حصے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زیر آب آتے گئے۔ یوں پندرھویں صدی کا مشہور ترین شہر آج پانیوں کے نیچے پنہاں ہے۔
زمانہ قدیم میں ڈوجرلینڈ بحر شمالی میں مسولیتھک قبائل کا جائے مقام ہوا کرتا تھا۔ 20 ہزار سال پہلے یہ انگلینڈ اور یورپ کو ملانے والی وسیع زمین تھی۔ مؤرخین ڈوجرلینڈ کو شمال کی جنت کا نام دیتے ہیں جہاں کبھی زندگی (انسانی و حیوانی) اپنے پورے عروج پر تھی۔ لیکن پھر اس جگہ کو بڑھتے سمندر کی لہروں نے آ لیا۔ اور رفتہ رفتہ اس کے مختلف حصوں پر مچھیروں نے قبضہ جما لیا۔
یہ قدیم رومی شہر کسی زمانے میں امراء کے لیے ایک سیاحتی مقام کا درجہ رکھتا تھا جہاں وہ اپنی چھٹیاں گزارنے آیا کرتے۔ کئی آتش فشانی راستوں سے بھرا یہ شہر گرم پانیوں سے لبالب ہوتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یہ اس وقت کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک تھا۔ لیکن پھر وہ وقت بھی آیا کہ انہی پانیوں نے بلند ہو کر اس شہر کو ڈبونا شروع کر دیا۔ سیاحوں نے تو اس کی جگہ اور شہروں کا رخ کر لیا۔ لیکن یہ تاریخی شہر آج بھی زیر سمندر اپنے باسیوں کی راہ تکتا ہے۔ سمندر کی گہرائیوں میں اس کی تاریخی باقیات آج بھی موجود ہیں۔ جن میں سے ایک پسونیوں کا ولا ہے جس پر رومی بادشاہ نیرو نے اپنے خلاف بغاوت کی پاداش میں قبضہ کر لیا تھا۔
کیرمل ساحل کے ساتھ زیرسمندر پتھروں کی مخصوص حالتیں التت یام کہلاتی ہیں۔ اس جگہ کو لگ بھگ 8000 سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا جبکہ اس وقت کے مکانات اور کنوؤں کی بنیادیں ترتیب شدہ پتھروں کی صورت میں آج بھی نظر آتی ہیں۔ روایت ہے کہ ایک آتش فشاں کے پھٹنے سے سمندر میں بڑا سونامی آیا جس سے یہ شہر ہمیشہ کے لیے غرق ہو گیا۔ شہر کے بیچوں بیچ ایک عبادت گاہ تھی جہاں “پانی کی روح” کی پوجا کی جاتی تھی۔
یہاں پر تپ دق جیسی مرض سے مرنے والے 65 افراد کے ڈھانچے بھی ملے ہیں جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ یہ تاریخ میں کسی بیماری کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہونے والی اموات اور کسی تہذیب سے صفحہ ہستی سے مٹنے کے سب سے قدیم شواہد ہیں۔
نودریافت شدہ آبنائے کیمبے کو حادثاتی طور پر اس وقت دریافت کیا گیا جب ایک آرگنائزیشن پانی میں آلودگی کے حوالے سے زیرسمندر تحقیقات کر رہی تھی۔ اس دریافت کے بعد یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ شاید یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب تھی جس کے ڈانڈے 9500 سال قبل کے ہڑپہ دور سے جا ملتے ہیں۔ یہاں سے ملنے والے انسانی ڈھانچوں اور دانتوں کی مدد سے اس مقام کی تاریخ کے بارے میں تحقیق جاری ہے۔
جھیل ٹیٹیکاسا کی آب و ہوا نہایت پراسرار ہے۔ مقامی لوگ اس مقام سے خوف زدہ رہتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہاں کسی آسیب کی موجودگی بھی ہے۔ 1500 سال پرانا یہ شہر جھیل کی تہہ میں موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے وقتوں میں اس جگہ کو بادشاہ اپنی لوٹی ہوئی دولت اور ہیرے جواہرات وغیرہ کو چھپانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ لیکن یہ خزانے وقت کے ساتھ معدوم ہو گئے۔ نیشنل جیوگرافک کی ٹیم کے غوطہ خوروں نے اس جگہ پر تقریباً 200 غوطے لگا کر کچھ مخصوص پتھر کے مجسمے، سونے کے ٹکڑے اور قدیمی باقیات دریافت کی ہیں۔
اس شہر کی بنیاد تقریباً 1300 سال پہلے رکھی گئی تھی۔ اور یہ اگلے 300 سالوں تک قائم و دائم رہا۔ یہ شہر منگ اور چنگ خاندان کے دور کی نشانی قرار دی جاتی ہے جنہوں نے 1368 عیسوی میں چین پر حکومت کی۔ حیران کن طور پر جب اس شہر کی بہتری کے لیے کوششیں کی گئیں تو الٹا یہاں پر زوال کی ابتداء ہو گئی۔ اب یہاں پر زینان ڈیم اور ایک بڑا بجلی گھر تعمیر شدہ ہے۔ جبکہ شی چینگ شہر پانی میں 40 میٹر گہرائیوں تک زیر آب چکا ہے۔ البتہ اس شہر کی فصیلیں، دروازے اور مجسمے آج بھی جوں کے توں موجود ہیں اور معائنہ کرنے والے غوطہ خوروں کے لیے حیرانگی کا باعث ہیں۔