تاریخ آپ کی ذہانت اور ہوشیاری ماپنے کے لیے یہ نہیں دیکھتی کہ آپ کلاس کے دوران ریاضی کے سوال کتنی آسانی سے حل کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو وقت کی بے رحم چکی میں پسںنا پڑتا ہے۔ اور اپنی تمام خامیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ذہین اور ہوشیار ثابت کرنا پڑتا ہے۔
البرٹ آئن سٹائن کو کلاس سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ اساتذہ کا خیال تھا کہ وہ ایک نالائق اور کند ذہن طالبعلم ہے۔ کون نہیں جانتا کہ آئزک نیوٹن کی اکستابی صلاحیتیں بہت کمزور تھیں۔ اور اس کے اساتذہ نے اسے خصوصی بچوں کے اسکول میں داخل کروانے کا مشورہ دیا تھا۔ ماضی کو چھوڑیے، عصرِ حاضر کی ایک زندہ مثال ہالی ووڈ کے نامور ستارے ٹام کروز کو ہی لیجیے۔ جو اکتسابی معذوری کا شکار تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس معذوری کو اپنے کیریئر کے آڑے نہیں آنے دیا۔ اور آج فلمی دنیا کا نامور ستارہ بن کر جگمگا رہے ہیں۔
یہ تمام شخصیات جن کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے، انہوں نے اپنی معذوری اور ناکامی کو ہی اپنی طاقت بنایا اور دنیا کے کامیاب ترین انسان بن کر ابھرے۔ ان کی شہرت کے ڈنکے آج تک چہار دانگ عالم میں گونج رہے ہیں۔ اس مضمون میں ہم آپ کو ایسی ہی تاریخ کی دس بہترین، ذہین اور ہوشیار ترین شخصیات سے متعارف کروا رہے ہیں۔ جو کہ ہمارے لیے بھی مشعلِ راہ ہیں۔ زیر نظر فہرست آپ کی بصارتوں کی نذر، اسے پڑھیے اور اپنی زندگی کا محرک خود طے کیجیے۔
فہرست کے دسویں زینے پر موجود ہیں تاریخ کے عظیم ترین فاتح اور اپنے وقت میں آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے اسکندر اعظم۔۔۔ ہو سکتا آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ روس کو فتح کرنے کے دوران ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا انسان “عظیم” اور “ہوشیار” کیسے ہو سکتا ہے؟
اس کا جواب ہے تاریخ۔۔۔ جی ہاں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسکندر اعظم وہ انسان تھا جس کے والد نے اس کی ہوشیاری اور ذہانت پر مبنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے صرف سولہ سال کی عمر میں ہی اسے سلطنت مقدونیہ کی بادشاہت سونپ دی۔ اور یہ اسکندر اعظم کی صلاحیتوں کا ثبوت تھا کہ جب اس نے وفات پائی تو اس کی سلطنت مقدونیہ سے سے نکل کر دنیا کے کئی براعظموں حتی کہ ایشیا تک پھیل چکی تھی۔ بدقسمتی سے اسکندر اعظم کی موت کی وجہ انوفیلس نامی مچھر تھا جو کہ آج بھی سالانہ ہزاروں اموات کا باعث ہے۔
مائیکل اینجلو اور مشہور عالم مصور لیونارڈو ڈا ونچی کے کام میں صرف سٹائل کا ہی فرق تھا۔ اول الذکر اپنے کام کی وجہ سے جدید فنون لطیفہ اور مغربی فنون پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ مائیکل اینجلو کہ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ پہروں ہوا میں معلق رہ کر بھی پینٹ کر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کئی دہائیوں بعد بھی چھتوں پر کیا گیا ان کا تصوراتی کام اپنی مثال آپ ہے۔ مائیکل اینجلو کو ان کے اس بے مثال کام کی وجہ سے آج آرٹ کے طالبعلموں میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔
مصنوعی روشنیوں کے خالق، انیسویں و بیسویں صدی کے عظیم ترین مؤجد تھامس ایڈیسن کو کون نہیں جانتا؟ یہ وہ شخص ہے جس نے بلب ایجاد کیا۔ گو کہ بلب کی ایجاد کو نکولس ٹیسلا سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لیکن تاریخ نے بہرحال رات کے اندھیروں کو مصنوعی طور پر اجالوں میں تبدیل کرنے کا سہرا تھامس ایڈیسن کے سر ہی باندھا ہے۔
ساتویں زینے پر براجمان ہیں لیونارڈو ڈا ونچی۔۔۔ یہ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں جتنا ہی سوچتے جائیں اتنا ہی دماغ الجھتا چلا جاتا ہے کہ آخر لیونارڈو تھا کون؟؟؟
ایک جمالیاتی فنکار، ایک سائنسدان، ایک ماڈل، یا ایک مجسمہ ساز؟
غیر جانبداری سے پرکھا جائے تو یہ تمام خوبیاں ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ مشہور عالم “مونا لیزا” پینٹنگ کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ جس کی مسکراہٹ آج بھی دنیا کے لیے حیرت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کا سب سے پہلا نمونہ تیار کرنا بھی ہے۔ جس کی بنیاد پر بعد میں یہ ہوائی مشینیں تیار ہوئیں۔ اور آج انسان ہواؤں سے بھی آگے نکل کر خلاؤں تک جا پہنچا ہے۔
لیونارڈو ڈا ونچی کی کہانیاں سینہ بہ سینہ روایات، ناولوں، کارٹونوں اور متنازعہ فری میسن تحاریک کی صورت میں بار بار دہرائی جاتی رہیں ہیں۔ ان ہی کاموں کی بدولت تاریخ ڈا ونچی کو ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کرتی ہے جو علوم و فنون کے ہر شعبہ کا ماسٹر تھا۔ اور رہتی دنیا تک رہے گا۔
ادب نے یقیناً انسان کی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ شعبہ ادب کا تذکرہ ہو اور ولیم شیکسپیر کا نام نا آئے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ شیکسپیئر وہ شخصیت ہیں جن کے زبان و ادب پر اثرات صدیوں سے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اور ہمیشہ کیے جاتے رہیں گے۔ حیران کن طور پر عام آدمی کے لیے شیکسپیئر اپنے کام سے زیادہ نام سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ اکثریت ان کے نام کے ہجوں میں ‘e’ کو بھول جاتی ہے۔ اور پھر استادان فن کو اسے درست کرنا پڑتا ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ ولیم شیکسپیئر کا سب سے نمایاں کام ان کے انگریزی ادب میں لکھے وہ 36 ڈرامے ہیں۔ جنہیں تاریخ کے مشہور ترین اور عظیم ترین ڈرامے قرار دیا جائے تو غلط نا ہو گا۔
شیکسپیئر کی تحاریر میں لکھے محاورے اور ان کے خود ساختہ جملے آج صدیوں بعد بھی زبان زد عام ہیں۔ ان کی ہر معاملے کو مختلف رخ سے دیکھنے کی صلاحیت نے ہی انہیں گزشتہ صدیوں کی عظیم ترین شخصیات میں لا کھڑا کیا ہے۔
آپ حیران ہوں گے کہ دنیا کے دس ہوشیار ترین آدمیوں میں ایڈولف ہٹلر کا نام کیسے آ گیا، وہ بھی پانچویں زینے پر؟
آپ کے حیرانگی بجا ہے۔ کیونکہ ہٹلر کو انسانی تاریخ میں کروڑوں اموات کا ذمے دار گردانا جاتا ہے۔ لیکن ذرا ایک لمحے کو سوچیے کہ نازی ازم کی بنیاد رکھ کر جھوٹ کے ذریعے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا شخص مہا ہوشیار ہی ہو سکتا ہے۔ ہٹلر کا مشہور عالم قول ہے “کہ میں نے کچھ یہودیوں کو اس لیے زندہ چھوڑ دیا ہے تا کہ دنیا جان سکے کہ ان کا خاتمہ کیوں ضروری تھا”۔ اس قول نے دنیا کو سالوں تک حیرت و تجسس کا شکار کیے رکھا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ہٹلر مبینہ طور پر ایک یہودی کی ناجائز اولاد تھا جس نے ہٹلر کی پیدائش کے بعد دونوں ماں بیٹوں کو چھوڑ دیا تھا۔
ہٹلر نظم و ضبط کا پابند ایک فوجی شخص تھا جس نے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ جرمن فوج اور پولیس سمیت دیگر وسائل استعمال کرتے ہوئے اپنے گرد ایک حفاظتی حصار قائم کیا۔ اور اسے بعد میں اپنے نازی منشور کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس ضمن میں ہٹلر بیسیوں صدی کا بہت بڑا اور ہوشیار شخص گردانا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک اس کی جگہ اسامہ بن لادن نے اپنے پرعظم اور مخصوص محرک کی بنیاد پر لی۔
یہ وہ عظیم شخص تھا جس نے انسانیت کو افق کے اس پار کائنات کے دوردراز خلاؤں میں جھانکنے کے لیے “آنکھیں” فراہم کیں۔ یہ گیلیلیو ہی تھا جس نے سب سے پہلے دوربین ایجاد کی۔ بعد میں اسی ایجاد نے کائنات کے پوشیدہ رازوں میں سے چند ایک کو انسان تک عیاں کرنے میں مدد فراہم کی۔
تصور کیجیے کہ اس عظیم سائنسدان نے عصر حاضر کی جدید دفاعی انٹیلیجنس کی بنیاد رکھی۔ اور تو اور اس وقت دنیا کے سب سے بڑے خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کی جڑیں بھی صدیوں پہلے گزرے شخص گیلیلیو سے جا ملتی ہیں۔
معزوروں کی کرسی پر بیٹھ کر بلا حس و حرکت کائنات کے دوردراز گوشوں میں جھانکنے والا یہ شخص بیسویں صدی کے عظیم ترین سائنسدانوں میں گردانا جاتا ہے۔ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر ڈاکٹر ہاکنگ نے آئن سٹائن کے ان نظریات کی عملی تشریح بھی کی جسے عام انسانی دماغ سمجھنے سے قاصر ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ نے نظریہ اضافیت اور کوانٹم نظریات کو اس طرح یکجا کیا کہ دنیا کے تمام سائنسدان حیران رہ گئے۔ ہاکنگ نے ثابت کیا کہ یہ امکانات کی نہیں بلکہ انسانی دماغ کی حد بندی ہے جو لوگوں کو سچ تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔
انیسویں صدی کے اس نامور ریاضی دان نے طبیعات کے ایسے قوانین وضع کیے جن پر عمل کر کے آج بھی تجربات کا سلسلہ جاری ہے۔ اسحاق نیوٹن کے نظریات بہت ہی سادہ اور عام فہم ہیں۔ شاید تاریخ کے یہ واحد سائنسدان ہیں جن کے کام کو عام دماغ کے لیے بھی سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ سائنس سے دلچسپی رکھنے والے قارئین نیوٹن کے متعارف کردہ حرکی و ثقلی قوانین سے ضرور واقف ہوں گے جو آج بھی اسکول کی سطح پر بطور نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔
تاریخ کے نامور ذہین اور ہوشیار ترین اشخاص کی فہرست کی پہلی پائیدان پر بلاشبہ البرٹ آئن سٹائن کا نام ہی ہونا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ آئن سٹائن کا دماغ ایک عام انسان سے 4 فی صد زائد کام کرتا تھا۔ اس بات سے ہالی ووڈ کی مشہور سائنس فکشن فلم “لیوسی” ذہن میں آتی ہے۔ جس میں ہروئین کا دماغ سو فی صد کام کرنے لگتا ہے نتیجتاً وہ زندگی کے ایسے رازوں سے بھی روشناس ہو جاتی ہے جو کہ عام انسان کے بس کی بات نہیں۔
کچھ یہی حال آئن سٹائن کا بھی تھا۔ جنہیں بیسویں صدی کے مؤثر ترین سائنسدان کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مشہور عالم مادہ و توانائی کی مساوات اور نظریہ اضافیت آئن سٹائن کے نابغہ روزگار ذہن کے ہی تخلیق کردہ ہیں۔ موجودہ دور میں ان کا نام ایک محاورہ یا لقب بن چکا ہے۔ اگر کسی کو کہا جائے کہ “تم تو بڑے آئن سٹائن ہو” تو وہ اسے اپنے لیے بہت بڑا فخر سمجھتا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ مذکورہ شخص تخلیقیت اور ذہانت کے اعلی درجے پر فائز ہے۔
فہرست پر نظر ثانی:
البرٹ آئن سٹائن
اسحاق نیوٹن
اسٹیفن ہاکنگ
گیلیلیو گیلی لائی
ایڈولف ہٹلر
ولیم شیکسپیئر
لیونارڈو ڈا ونچی
تھامس ایڈیسن
مائیکل اینجلو
اسکندر اعظم