دنیا کی تاریخ میں کئی ایسی مشہور شخصیات کے قتل ہوئے ہیں جنہوں نے نا صرف پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ تاریخ کا رخ بھی موڑ دیا۔ لیکن یہ قتل مجموعی طور پر کیے جانے والے قاتلانہ حملوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ دنیا کی سینکڑوں بڑی اور اہم شخصیات پر حملہ کر کے انہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ان میں سے چند کوششیں ہی حملہ کرنے والوں کے لیے بارآور ثابت ہوئیں۔
اس مضمون میں ہم آپ کو ایسے ہی دس بڑے قاتلانہ حملوں کے بارے میں بتائیں گے جو ناکامی سے دوچار ہوئے۔ اگر یہ کامیاب ہو جاتے تو آج کتابوں میں پڑھی جانے والی تاریخ شاید کچھ اور ہوتی۔ تو آئیے نظر ڈالتے ہیں دنیا کے دس بڑے خفیہ اقدام قتل پر جو کہ ناکام ہوئے۔
جمال ناصر مصر کے مشہور حکمران اور عرب قوم پرستی کے حامی صلیبی سمجھے جاتے تھے۔ وہ اسرائیل کے کٹر مخالف تھے۔ اور ایک عرصے سے اپنے مخالفین کے نشانے پر تھے۔ جنہوں نے انہیں مارنے کے لیے اکتوبر 1954 کا وقت چنا۔ اس وقت جمال ناصر ریڈیو پر براہ راست تقریر کر رہے تھے جب ان پر آٹھ گولیاں چلائیں گئیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے نشانے پر نا لگی۔ سب نشانے خطا گئے۔ بعد میں جمال ناصر نے مصر کی نئی تاریخ رقم کی۔ اور اسرائیل کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔
اپنے حلیف اور اتحادی ہٹلر کی طرح مسولینی پر بھی کئی قاتلانہ حملے ہوئے۔ جن میں وہ بچ نکلے اور بالآخر جنگ عظیم دوئم کے بعد انہیں پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا۔ سال 1926 میں اس فاشسٹ لیڈر پر یکے بعد دیگرے ہونے والے حملوں نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی تھی۔ ان میں ایک آئرش خاتون کا حملہ بھی ہے جو ویسے تو مسولینی کو قتل کرنے میں ناکام رہی البتہ ان کی ناک کو زخمی کرنے میں ضرور کامیاب ہو گئی۔
کیوبا کے صدر فیڈرل کاسترو کے متعلق ایک ڈاکومنٹری بنائی گئی تھی جس کا نام تھا “فیڈرل کاسترو کو قتل کرنے کے 638 طریقے”. خیر یہ تو مبالغہ آرائی بھی ہو سکتی ہے البتہ یہ طے ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے کاسترو کو قتل کرنے کی سینکڑوں ناکام کوششیں کیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ کاسترو کو اکثر موت کا سامنا رہتا تھا۔
فیڈرل کاسترو پر کیے جانے والے قاتلانہ حملوں میں سب سے دلچسپ اس کی ایک محبوبہ کا حملہ ہے۔ جو کاسترو کو قتل کرنے کے لیے اسے ملنے آئی۔ لیکن کاسترو نے پہلے ہی بھانپ لیا کہ اس کی محبوبہ کے کیا ارادے ہیں۔ کاسترو نے اپنی چالبازی اور پرفریب گفتگو سے نفسیاتی طور پر اپنی قاتلہ کو قبضے میں کر کے غیر مسلحہ کر دیا۔
13 مئی 1981 کو محمنت نامی شخص نے پوپ جان پال دوئم پر چار گولیاں چلائیں جو کہ ان کے بازو اور پیٹ میں لگیں۔ اس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔ محمنت علی آغا ایک جرائم پیشہ شخص تھا اور گرے وولف تنظیم کے ساتھ منسلک تھا۔ اسے بعد میں گرفتار کر کے اٹلی میں عمر قید کی سزا دے دی گئی تھی۔ پوپ جان پال نے جیل میں جا کر اس سے ملاقات کی اور اپنے خلاف کیے گئے قاتلانہ حملے پر معاف کر دیا۔
کسی مقصد کے بغیر اقدام قتل نے سابق امریکی صدر اینڈریو جیکسن کی جان بچا لی۔ ان پر حملہ آور رچرڈ لارینس نے 30 جنوری 1835 کو جیکسن پر دو گولیاں چلائیں۔ دونوں اپنے نشانے سے کہیں دور جا کر لگیں۔ اس کے بعد جو ہوا وہ بھی انتہائی حیران کن تھا۔ کیونکہ ناکامی کے بعد رچرڈ نے روپوش ہونے کی بجائے اپنے ہاتھ میں پکڑے کین کو اپنے ہی سر پر مارنا شروع کر دیا۔ حتی کہ امریکی صدر کے محافظین نے اسے گرفتار کر لیا۔ لارینس کا ذہنی توازن درست نا ہونے کی وجہ سے انہیں دماغی ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا تھا۔
روسی انقلابی لیڈر اور سوویت یونین بانی ولادی میر لینن عین موت کے منہ میں جانے سے بچے جب فانیا کپلین نامی ایک انقلابی نے 30 اگست 1918 کو ان پر جان لیوا حملہ کرتے ہوئے تین گولیاں چلائیں۔ یہ گولیاں لینن کے جبڑوں اور کندھوں میں آ کے لگیں جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔ اس قاتلانہ حملے کے بعد لینن کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اسے انہوں نے اپنی تشہیری مہم میں خوب استعمال کیا۔ حملہ آور کو لینن کے محافظوں نے پکڑ کر مار دیا تھا۔
امریکی تاریخ کے سب سے لمبے عرصہ تک صدر رہنے والے فرینکلن روزویلٹ 16 فروری 1933 کو اس وقت موت کے منہ میں جانے سے بچے جب وہ میامی میں ایک تقریر کر رہے تھے۔ ان حملہ کرنے والا زنگارا نامی ایک اطالوی شخص تھا جس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ اس نے امریکی صدر پر چار گولیاں چلائیں جو کہ خطاء گئیں اس کے بعد ہجوم نے اس کے اوپر حملہ کر دیا۔ تاہم اس دوران وہ مزید چار گولیاں چلانے میں کامیاب رہا جن میں سے ایک شکاگو کے مئیر کو جا لگی جو کہ شدید زخمی ہو گئے۔ واضح رہے کہ روزویلٹ کا عرصہ صدارت امریکی تاریخ کے بھاری ترین اور ڈپریشن سے بھرپور سال تھے۔ اسی دوران جنگ عظیم دوئم بھی لڑی گئی۔
30 مارچ 1981 کو امریکی صدر رونالڈ ریگن پر جان ہینکلے جونئیر نے قاتلانہ حملہ کیا۔ جس میں وہ بال بال بچے۔ اس حملے کی ناکامی سے زیادہ اس کے پس پردہ مقصد دلچسپ تھا۔ اور یہ مقصد تھا مشہور امریکی اداکارہ جوڈی فاسٹر کی توجہ کا حصول۔۔۔
قاتل دراصل 1976 میں ریلیز کردہ فلم “ٹیکسی ڈرائیور” کا بہت بڑا مداح تھا۔ اور اسی بناء پر فلم کی ہیروئن جوڈی فاسٹر کو پسند کرتا تھا۔ بار بار کوششوں کے باوجود وہ جوڈی فاسٹر کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ جس کے بعد اس نے امریکی صدر پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ بنایا تا کہ مشہور ہو کر جوڈی کی توجہ حاصل کر سکے۔ تاہم ناکام حملے کے بعد اسے گرفتار کر کے مختلف ذہنی مسائل کی وجہ سے دارالامان بھیج دیا گیا۔
تاریخ کے مشہور لیکن بدنام زمانہ افراد میں سے ایک جرمن ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر پر کئی بار قاتلانہ حملے کیے گئے۔ عین درستگی سے بات کی جائے تو ان حملوں کی تعداد 42 کے لگ بھگ تھی۔ ان حملوں میں سب سے مشہور آپریشن ویلکری تھا جسے بعد میں نامور اداکار ٹام کروز کی فلم مشن امپاسبل کا پلاٹ بھی بنایا گیا تھا۔
اس حملے کی پلان میں گولے بارود سے بھرے ایک بریف کیس کو ایک اجلاس کے دوران ہٹلر کے سامنے رکھا جانا مقصود تھا۔ تاہم یہ بریف کیس غیر ارادہ طور پر ہٹلر کے ایک جنرل ہانز برنڈتھ کے ہاتھ لگ گیا۔ جو کہ بارود پھٹنے سے مارا گیا۔ تاہم ہٹلر اس حملے میں معمولی زخمی ہوا۔ حملہ آور نے ہٹلر کے محافظوں کے ہاتھ لگنے کی بجائے خودکشی کر لی۔
چارلس گئولے فرانس کی تاریخ کے پراثر ترین صدور میں سے ایک ہیں۔ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے لوگ اس کے دشمن بن چکے تھے۔ ان دشمنوں نےکئی بار ان کی جان لینے کی کوشش کی۔ سال 1962 کے دوران جب چارلس اپنی اہلیہ کے ساتھ پیرس میں سفر کر رہے تھے تو ان کی کار پر بے شمار گولیاں چلائیں گئیں۔ تاہم ڈرائیور کی مہارت اور کار کی بعض خوبیوں کے باعث وہ اس حملے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ حملہ چارلس کی جانب الجیریا کو آزادی دیے جانے کے خلاف ردعمل تھا۔ اس حملے میں دو پولیس والے بھی مارے گئے تھے۔