دنیا کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے بیسویں صدی ایک یادگار صدی تھی۔ جس میں کئی نئے ممالک دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آئے۔ یہی وہ صدی تھی جس میں عالمی مالیاتی ادارے، عالمی تجارتی ادارے اور اقوام متحدہ جیسے طاقتور ادارے وجود میں آئے جن کی اپنی طاقت کئی ممالک کی مجموعی معاشی قوت سے بڑھ کر ہے۔
ان اداروں کے وجود میں آنے سے پہلے دنیا صرف چند استعماری طاقتوں کے زیر نگین تھی۔ جنہوں نے باقی دنیا کو اپنے نوآبادیاتی نظام کے زیر تسلط رکھا ہوا تھا۔ یہ تسلط فوجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی ہر نوعیت کا تھا۔ اس صدی نے تاریخ کی بڑی استعماری طاقتوں کو بنتے اور پھر ختم ہوتے دیکھا۔
اس مضمون میں ہم آپ کو بیسویں صدی کی ایسی ہی دس طاقتور ترین استعماری طاقتوں کے متعلق بتائیں گے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں آسٹرو ہنگیرین سلطنت یورپ کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی۔ وسطی یورپ کا تقریباً سات لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد کا رقبہ اس کے زیر تسلط تھا۔ اس سلطنت میں گیارہ بڑے لسانی گروہ تھے جن میں جرمن،ہنگرین، پولش، یوکرینین، سلووک، کروشیین، سرب، اٹالین اور رومانین شامل ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد آسٹرو ہنگیرین سلطنت زوال کا شکار ہو کر کئی حصوں میں بکھر گئی اور 75 فی صد سے زائد رقبے کا تسلط کھو بیٹھی۔ اس سے پیدا ہونے والے نئے ممالک میں رومانیہ، چیکوسلواکیہ، یوگوسلاویہ، پولینڈ اور اٹلی شامل ہیں۔ جبکہ آسٹریا اور ہنگری کو اتنا کمزور کردیا گیا کہ دوبارہ ابھرنے کے قابل نا رہے۔
اٹلی وہ آخری ملک تھا جس نے افریقی زمین کے مال غنیمت سے اپنا حصہ حاصل کیا۔ اٹلی کے زیر تسلط تقریباً سات لاکھ اسی ہزار مربع کلومیٹر کا حصہ آیا جس میں صومالیہ، اریٹریا اور لیبیا جیسی نوآبادیاتی علاقے شامل تھے۔ ان میں لیبیا سب سے بڑی اور اہم ترین نوآبادیاتی مملکت تھی۔ اس کے علاوہ رہوڈز جزائر اور چینی ٹائنسٹن کا کچھ حصہ بھی اٹلی کے زیر تسلط آیا۔
اٹلی کا آخری قبضہ البانیا کی صورت میں 1939 میں ہوا۔ جس کے بعد جنگ عظیم دوئم شروع ہو گئی۔ اس جنگ کے دوران سلطنتِ اطالیہ کا بڑا حصہ برطانیہ نے اپنے قبضے میں کر لیا۔ یوں یہ سلطنت تھوڑے ہی عرصہ بعد اپنے زوال کا شکار ہو گئی۔
جرمنی نوآبادیاتی علاقوں پر قبضہ کرنے میں سست رہا۔ اس کے باوجود افریقہ کے کیمرون، تنزانیہ اور نیمیبیا جیسے علاقے جرمنی کے حصے میں آئے۔ اس کے علاوہ نیو گھانا، بسمارک اور کئی جزائر پر بھی جرمنی کا قبضہ ہوا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ چین کے ساحلی شہر سنگ تاؤ تک جا پہنچا تھا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمن کے زیر تسلط بڑے علاقے برطانیہ کے قبضے میں آ گئے۔ جبکہ پیسیفک جزائر پر جاپان نے قبضہ کر لیا۔ یوں بالآخر جرمن سلطنت 10 جنوری 1920 میں ہونے والے ورسیلیز معاہدے کے نتیجے میں انجام کو پہنچی۔
یورپی اقوام میں سے پرتگالی وہ واحد قوم تھی جس نے افریقہ کے سب سحارا علاقے پر قبضے کا دعویٰ کیا۔ ایک کمزور معیشت اور اندرونی طور مسلسل جنگوں کا شکار رہنے کے باوجود پرتگال کے زیر تسلط انگولا، موزمبیق، گینابساؤ، شرقی تیمور اور مکاؤ جیسے علاقے شامل تھے۔
سال 1961 میں بھارت نے پرتگال سے گووا کو واپس حاصل کیا۔ جبکہ 1974 میں قائم ہونے والی نئی پرتگالی حکومت نے انگولا، موزمبیق اور گینابساؤ سمیت دیگر علاقوں کو آزادی دے دی۔ سب سے آخر میں صدی کے آخری سال یعنی 1999 میں مکاؤ کا قبضہ چین نے واپس حاصل کیا۔
سلطنتِ عثمانیہ سترہویں صدی سے ہی دنیا کی ایک بڑی سلطنت تھی جس کے زیر قبضہ مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک تھے۔ اس سلطنت کا صدرمقام قسطنطنیہ (حالیہ استنبول) ترکی میں تھا۔
جنگ عظیم اول کے آغاز سے ہی سلطنت کے اکثریتی آبادی کے علاقوں میں بغاوت پھوٹ پڑی۔ جسے برطانیہ اور فرانس کی مکمل مدد حاصل تھی۔ بلکہ یہ ممالک بغاوت کے بنیادی محرک تھے۔ جنگ کے بعد سلطنت عثمانیہ اور اس کے حریف اتحادیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی رو سے شام، لبنان، اردن، فلسطین اور عراق کے ممالک برطانیہ اور فرانس کے حصے میں آئے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں غربی اناطولیہ یونان کے حصے میں اور کچھ جزائر اطالویوں کے حصے میں آئے۔ شرقی اناطولیہ میں آرمینیا کو آزادی دے دی گئی۔
یوں یکم نومبر 1922 کو ترکی کو ری پبلک قرار دیے جانے کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کا سورج غروب ہو گیا۔
سال 1868 سے بیسویں صدی کے وسط تک جاپان کی سلطنت الاسکا سے لے کر سنگاپور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے یہ یورپ کی بڑی طاقتوں سے بھی زیادہ طاقتور تھی۔ اس کے زیر تسلط کوریا، چین، تائیوان اور فلپائن جیسے ممالک شامل تھے۔
جنگ عظیم اول کے بعد جاپان چونکہ فاتح اتحادیوں کا حصہ تھا اس لیے اسے جرمنی کے ایشیائی نوآبادیاتی علاقوں کا قبضہ بھی دے دیا گیا۔ ان میں شینتونگ، پیننسولا اور مائیکرونیشیا جیسے جزائر بھی شامل تھے۔ جاپان کی جانب سے مزید علاقوں پر قبضے کی کوشش اور اٹلی و جرمنی کے ساتھ دفاعی معاہدوں نے جنگ عظیم دوئم کو جنم دیا جس میں جاپان ہار گیا اور 1945 میں اپنے نوآبادیاتی علاقے فاتح اتحادیوں کے حوالے کر دیے۔ یوں ایک عہد اپنے انجام کو پہنچا۔
دوسری جنگ عظیم تک فرانسیسی سلطنت دنیا کی واحد بڑی سلطنت تھی جس کا موازنہ سلطنتِ برطانیہ سے کیا جا سکتا تھا۔ اس کے زیر تسلط ساڑھے چھے کروڑ آبادی پر مشتمل پچاس لاکھ مربع میل سے زائد کا علاقہ شامل تھا۔
فرانس کے پاس افریقہ کی پندرہ کالونیاں تھیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں فرانس کی حدود ہند و چین علاقے تک پھیلی ہوئیں تھیں۔ جبکہ کئی پیسیفک اور کیریبین جزائر بھی فرانسیسی سلطنت کا حصہ تھے۔ جنگ عظیم اول کے بعد شام، لبنان اور کیمرون جیسے علاقے بھی فرانسیسیوں کے پاس آ گئے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانسیسی سلطنت بکھرنا شروع ہو گئی جب اس کے اکثریتی علاقوں پر جاپان، امریکہ اور برطانیہ جیسی طاقتوں نے قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ فرانس کے زیر قبضہ زیادہ تر نوآبادیاتی علاقوں نے 1950 سے 1960 کی دہائی میں آزادی حاصل کی۔
بحیرہ بالٹک سے لے کر بحر الکاہل تک پھیلی ہوئی روسی سلطنت کے پاس دنیا کے کل رقبے چھٹا حصہ تھا۔ اس رقبے پر تیرہ کروڑ سے زائد کی آبادی رہائش پزیر تھی۔ اس کے پاس یورپ میں سب سے بڑی فوج تھی جس کی تعداد پندرہ لاکھ سے زائد تھی۔
پہلی جنگ عظیم روسی سلطنت کے انحطاط کی بڑی وجہ بنی۔ کیونکہ اس دوران سلطنت کے کروڑوں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور صنعتیں تباہ ہو گئیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں روس نے یورپ میں پولینڈ، فن لینڈ اور لٹویا جیسے ممالک کو کھو دیا۔ بالآخر اس وقت کے بادشاہ نکولس دوئم کو کمیونسٹ پارٹی نے نکال باہر کیا اور نئی سوویت یونین کی بنیاد رکھی۔
سوویت یونین کو متحدہ سوویت سوشلسٹ روس یعنی USSR بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سلطنت 1917 کے روسی انقلاب کے بعد معرضِ وجود میں آئی۔ یونین کے قبضہ میں متنوع نسلی و لسانی علاقے شامل تھے۔ اس کے پاس ایک بڑی فوجی طاقت تھی۔ بڑے پیمانے پر صنعتوں کو اپنانے کے بعد سوویت یونین دنیا کی سپر پاور بن گئی۔
اسی کی دہائی میں بری معیشت اور کمزور لیڈرشپ کے باعث سوویت یونین کے اکثر علاقوں میں آزادی کی تحاریک شروع ہو گئیں۔سب سے پہلے ایسٹونیا، لیتھوانیا اور لیٹویا کی بالٹک ریاستوں نے آزادی حاصل کی۔ دسمبر 1991 میں یوکرائن، روس، آرمینیا، آذربائجان، ترکمانستان، تاجکستان اور ازبکستان سمیت درجنوں ریاستوں نے آزادی حاصل کی۔ اور یوں بیسویں صدی کی سب سے بڑی سپر پاور ٹوٹ کر بکھر گئی۔ جارجیا سب سے آخری ملک تھا جس نے دو سال بعد 1993 میں آزادی حاصل کی۔
کہا جاتا ہے کہ سلطنتِ برطانیہ دنیا کی ایسی سب سے بڑی سلطنت تھی جس میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ یہ سورج کے طلوع و غروب سے اوقات کے حساب سے بھی کہیں بڑھ کر پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے زیر تسلط تقریباً 14 کروڑ مربع میل کا علاقہ تھا جو کہ دنیا کے کل رقبے کا ایک چوتھائی بنتا ہے۔ دنیا کے ہر براعظم میں برطانیہ کے مقبوضہ علاقے موجود تھے۔
سلطنتِ برطانیہ کے عروج کی سب سے بڑی وجہ صنعتی انقلاب اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں نئی دریافتیں تھیں۔ جنہوں نے برطانیہ کے رقبہ کو پھیلنے میں بے انتہا مدد فراہم کی۔ لیکن جیسا کہ کہتے ہیں۔۔۔ ہر عروجِ را زوال۔ بالکل اسی طرح سلطنت برطانیہ بھی بیسویں صدی کے نصف میں ٹوٹنا شروع ہوئی۔ اس زوال کی بڑی وجہ دوسری جنگ عظیم بھی ہے جس کے دوران برطانیہ پر قرضہ بے تحاشہ بڑھ چکا تھا۔ اور اس کے پاس سلطنت کو چلانے کے لیے وسائل نہیں تھے۔ نیز اس دوران نئی ابھرنے والی طاقتوں امریکہ اور روس نے بھی اس زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ اور یوں اب سلطنتِ برطانیہ صرف انگلینڈ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جہاں اکثر سورج طلوع ہی نہیں ہوتا۔