معیشت کے میدان سے اچھی خبر ہے کہ پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے خارج کر دیا گیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف دراصل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا مخفف ہے۔ یہ ایک ٹاسک فورس ہے جو دنیا بھر کے مختلف ممالک نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت وغیرہ جیسے مسائل کو روکنے کے لیے بنائی۔ ایف اے ٹی ایف کی تاریخ 33 سال پرانی ہے۔ جب سال 1989 میں جی سیون جی ممالک کی جانب سے اس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ شروع میں اس کے رکن ممالک کی تعداد بہت کم تھی لیکن آہستہ آہستہ ٹاسک فورس کے رکن ممالک کی تعداد بڑھتی گئی۔ اس وقت ایف اے ٹی ایف کے ارکان کی تعداد 39 ہے۔ جن میں دو علاقائی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب اس ٹاسک فورس کا دائرہ کار دنیا کے دو سو کے قریب ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان ایشیاء پیسفک گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایف اے ٹی ایف کو بطور عالمی ادارہ مقبولیت تب ملی جب امریکہ میں نائن الیون کے حملے ہوئے۔ اس کے بعد اس ٹاسک فورس کے مقاصد میں دہشت گردی کی فنڈنگ کو روکنے جیسے اقدامات بھی شامل کیے گئے۔
ایف اے ٹی ایف خالصتاً تکنیکی بنیادوں پر کام کرنے والی فورس ہے۔ اس میں ٹیررر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے مہارت رکھنے والے ماہرین شامل ہوتے ہیں۔ جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کسی ملک کو گرے لسٹ میں رکھا جائے یا بلیک لسٹ کر دیا جائے۔
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اگر کسی ملک کو بلیک لسٹ میں ڈالا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ملک منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی اعانت جیسے جرائم پر قابو نہیں پا رہا۔ بلکہ سرکاری سرپرستی کی جا رہی ہے۔ جوں ہی ایف اے ٹی ایف کسی ملک کو بلیک لسٹ کرتا ہے تو عالمی سطح پر وہ ملک سفارتی، معاشی تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔
دوسری لسٹ جسے گرے لسٹ کہا جاتا ہے ایف اے ٹی ایف جن ممالک کو گرے لسٹ میں رکھتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ ممالک منی لانڈرنگ وغیرہ جیسے جرائم میں حکومتی سطح پر ملوث ہیں بلکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ گرے لسٹ میں موجود ملک ان جرائم پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ناکام ہے۔ اس سلسلے میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اس ملک کو ایسی پالیسیاں بنانے میں مدد دی جاتی ہے جس سے وہ گرے لسٹ سے نکل سکے۔
پاکستان کو آخری بار جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 40 شعبہ جات کے لیے تجاویز پیش کیں۔ جن میں پاکستان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی فنانس کے لیے کرپشن، اسمگلنگ، منشیات، دھوکہ دہی، ٹیکس چوری، اغوا برائے تاوان اور بھتے کے ذریعے حاصل ہونے والا پیسہ نقد لین دین، ریئل اسٹیٹ، قیمتی دھاتوں مثلاً سونا وغیرہ زیورات کی صورت میں محفوظ کیا جاتا ہے اور اس کی نقل و حرکت ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو کل ملا کر 34 نکات پر عملدرآمد کرنا تھا۔ پاکستان نے ان تمام نکات پر عملدرآمد کرتے ہوئے مناسب قانون سازی بھی کی ہے۔ جس کے بعد خبر ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
بتاتے چلیں کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ کیے جانے کے باوجود بھی متعلقہ معاملات کو حتمی نہج تک پہنچانے کے لیے سات سے آٹھ ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سلسلے میں ایف اے ٹی ایف کا وفد پاکستان کا دورہ کرے۔
گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان عالمی تجارت کے مخصوص بند دروازے کھل جائیں گے۔ پاکستان میں سرمائے کی غیر قانونی نقل و حرکت رُکے گی تو اس کا فائدہ عام عوام کو بھی ہوگا۔ اس سے نہ صرف حکومت کو دستاویزی معیشت بنانے میں مدد ملے گی بلکہ قانونی لین دین میں اضافے سے ٹیکسوں کی وصولی بھی بہتر ہوگی، سب سے بڑھ کر دہشت گردوں کی مالی معاونت اور سہولت کاری رکنے سے ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بھی بہتری آئے گی۔