گو کہ بحری قزاقی ایک ایسا پیشہ ہے جس پر ہمیشہ مردوں کا ہی راج رہا ہے۔ لیکن تاریخ میں کچھ ایسی خواتین بھی ہیں جنہوں نے اپنی وحشیانہ خصلت اور ہوشیاری کے باعث اس شعبہ میں بھی اپنا سکہ جمایا۔
خواتین کو عموماً نرم مزاج اور صلح جو طبیعت کی مالک قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایسی خواتین تھیں جنہوں نے اپنی دلیری، خون آشام درندگی اور وحشیانہ پن کے باعث دشمن کے دلوں میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ اور تو اور انہوں نے اپنے وقت کی طاقتور سلطنتوں میں بھی خوف و دہشت کے پنجے گاڑ دیے۔
اس مضمون میں ہم آپ کو ہی تاریخ کی دس بدنام زمانہ لیکن مشہور ترین بحری قزاقوں کے بارے میں بتائیں گے۔ تو دل تھام کر پڑھیے ایسی صنف کی سفاکی کا تزکرہ جنہیں صرف نرم دل ہی خیال کیا جاتا ہے۔
سیڈی دا گوٹ کا اصلی نام سیڈی فیرل تھا۔ سیڈی انیسویں صدی میں امریکی شہر نیویارک میں پیدا ہوئی۔ اس کی ابتدائی زندگی نیویارک کی گلیوں میں ایک لٹیرنی کے طور پر گزری۔ اس کی عادت تھی کہ مخالف کو سر میں ٹکر مار کر نڈھال کر دیا کرتی اور بعد میں اسے لوٹ لیا کرتی۔ اسی عادت کی وجہ اسے سیڈی دا گوٹ یعنی “بکری” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
آوارہ گردی کے دوران گیلس نامی ایک حریف کے ساتھ لڑائی میں سیڈی کا ایک کان ضائع ہو گیا۔ اس ہزیمت کے بعد اس نے نیویارک چھوڑ کر اس کے نواح میں پناہ لی۔ وہیں اس نے پیشہ ور ڈاکوؤں کو ساتھ ملا کر ایک گروہ بنایا جو بعد میں بحری قزاقوں کا گروہ کہلایا۔
ایک عرصہ تک سیڈی نے اس گروہ کے ساتھ دریائے ہڈسن میں سفر کیا اور دریا میں آنے جانے والی مسافر کشتیوں سمیت کناروں پر موجود فارم ہاؤسز وغیرہ کو لوٹا۔ یہ گروہ لوگوں کو اغواء کرتا اور پھر بھاری تاوان لے کر چھوڑتا۔ سیڈی اس گروہ کی انچارج تھی۔ یوں اسے سمندری کی بجائے دریائی لٹیرنی قرار دیا جائے تو غلط نا ہو گا۔
اپنے حریف گیلس میگ (جس کے ہاتھوں سیڈی زخمی ہوئی تھی) سے صلح کرنے کے بعد اس نے پیشے کو خیرباد کہ دیا۔ اور واپس نیویارک آ کر رہنے لگی۔
ملکہ ٹوئیٹا تاریخ کی قدیم ترین خاتون بحری قزاق ہے جو کہ تین قبل مسیح کے دور میں رہی۔ یہی نہیں بلکہ وہ دنیا کی واحد ملکہ تھی جس نے بحری قزاقی کو بطور پیشہ اپنایا۔
ٹوئیٹا ایک اردیائی قبیلے کی ملکہ تھی۔ اس نسبت سے بحر ادریاتک پر اس کا سکہ چلتا تھا۔ وہ سمندر سے گزرنے والے رومی و یونانی مال بردار جہازوں پر حملہ کر کے انہیں اپنے قبضہ میں لے لیا کرتی۔ تنگ آ کر رومیوں نے اس کی جانب مزاکرات کے لیے سفارتکار بھیجے۔ لیکن مزاکرات کے دوران ملکہ نے ایک سفارتکار کو قتل کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں دونوں سلطنتوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
یہ جنگ 229 تا 227 قبل مسیح تک جاری رہی۔ اور آخرکار ملکہ ٹوئیٹا کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ رومیوں نے فتح کے بعد الیریا کی حکومت ملکہ کو واپس سونپ دی لیکن اسے سمندری سفر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ یوں تاریخ کا ایک اور بدنام زمانہ باب بند ہوا۔
آئرلینڈ کے ایک سمندری لٹیرے کے گھر پیدا ہونے والی گریس او میلے کو “گرینولائی” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اپنے خاندانی پیشے کی پیروی کرتے ہوئے گرینولائی نے سولہویں صدی کے وسط میں آئرلینڈ کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ ہونے والی کئی مہمات میں حصہ لیا۔ اس نے اس شدت کے ساتھ وحشیانہ حملے کیے کہ برطانوی اور ہسپانوی بحری جہازوں کے لیے دردسر بن گئی۔
بالآخر سال 1574 میں برطانوی افواج نے ایک معرکے کے نتیجے میں اسے گرفتار کر لیا۔ اسے 18 ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ رہائی پاتے ہی اس نے ایک بار پھر بحری قزاقی کو اپنا لیا۔ نتیجتاً اسے ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن برطانیہ کی ملکہ الزبتھ سے براہ راست درخواست کے نتیجے میں اسے نا صرف رہائی نصیب ہوئی بلکہ بحری بیڑا بھی واپس کر دیا گیا۔ اس نے 1603 کو وفات پائی۔
جیکاٹ ڈیلاہائے سترھویں صدی عیسوی میں ہیٹی میں پیدا ہوئی۔ جیکاٹ ایک حادثاتی بحری قزاق تھی۔ کیونکہ اس کی ماں ایک معزور بچے کو جنم دیتے وقت وفات پا گئی۔ اپنے معزور بھائی کی دیکھ بھال کے لیے جیکاٹ نے بحری قزاقی کو بطور پیشہ اپنا لیا۔ اور چھوٹی موٹی بحری وارداتیں کرنے لگی۔
جیکاٹ ایک بار انتہائی مہارت سے مصنوعی موت کو طاری کر کے حکومت کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گئی۔ جس کے بعد اس نے ایک مرد کا روپ دھار لیا۔ چند سالوں بعد اس نے پھر اپنے پرانے پیشے کا رخ کیا۔ اور ایک اور خاتون بحری قزاق اینےڈیولاویوٹ کے ساتھ مل کر کئی سالوں تک کیریبیئن سمندروں پر راج کیا۔ بالآخر ایک جزیرے پر اپنے قبضے کا دفاع کرتے ہوئے ماری گئی۔
راشل وال 1760 میں پیدا ہونے والی دنیا کی پہلی امریکی خاتون ہے جس نے بحری قزاقی کو بطور پیشہ اپنایا۔ اس کی شادی جارج وال نامی ایک شخص سے ہوئی جو اپنے دوستوں کے ساتھ اس پیشے سے وابسطہ تھا۔ یوں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے راشل وال بھی ایک سمندری لٹیری بن گئی۔
اپنے شوہر کے ساتھ مل کر راشل نے کئی کشتویں پر دھاوا بول کر اپنے قبضے میں لیا۔ اس دوران انہوں پچیس سے زائد جہاز رانوں کو قتل کیا۔ ایم سمندری سفر کے دوران پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں راشل کا خاوند اور اس کا عملہ ہلاک ہو گئے تو اس نے واپس اپنے وطن کا رخ کیا۔ اور چھوٹی موٹی چوریاں کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے لگی۔
بالآخر 1789 میں ایک ڈکیتی کے دوران اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اور کچھ عرصہ مقدمہ چلا کر پھانسی کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ راشل آخری خاتون تھی جسے میساچوسٹس میں پھانسی دی گئی۔
سعیدہ ایک ترک قزاق باربروسہ کی حلیف اور مراکشی شہر ٹیٹووان کی حکمران تھی۔ سیدہ الحرہ کا نام اس کی نیک نامی اور شہرت کی وجہ سے پڑا۔ البتہ اس کا اصلی نام ابھی تک نامعلوم ہے۔
سیدہ نے سال 1515 سے 1542 تک بحیرہ روم کے غربی حصے کے پانیوں پر راج کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے عیسائی حکمرانوں سے بدلہ لینے کے لیے بحری قزاقی کا پیشہ اختیار کیا۔ اس نے بعد میں مراکشی بادشاہ سے شادی کر لی تھی۔ لیکن اس کے سوتیلے بیٹے نے حکمران بنتے ہی اسے محل سے نکال دیا۔ سیدہ کی باقی تاریخ کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔
بریٹینی کی شیرنی کہلانے والی جین، اولیور ڈی کلسن کی محبوب بیوی تھی جسے فرانسیسی بادشاہ فلپ ہشتم نے غداری کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اپنے شوہر کا بدلہ لینے کے لیے جین نے سمندری لٹیرنی کا پیشہ اختیار کر لیا۔
اپنی تمام جائداد بیچ کر جین نے تین جنگی بحری جہاز خریدے اور ان کی مدد سے انگلش چینل سے گزرنے والے جہازوں پر شب خون مارنا شروع کر دیا۔ اس دوران وہ صرف فرانسیسی جہازوں کو قبضے میں لیتی اور جہاز پر موجود پر تمام عملے کو ہلاک کر ڈالتی۔
سینکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اس کے انتقام کی آگ کچھ ٹھنڈی ہوئی تو اس نے قزاقی کو چھوڑ کر انگریز لیفٹیننٹ والٹر بینٹلی سے شادی کر لی۔
میری ریڈ بحری کپتان بننے کے لیے پیدا ہوئی تھی۔ اس کی وجہ شہرت ایک مرد کے روپ میں بھیس بدل کر رہنا ہے۔ اس نے اپنے بھائی کی میت کو سالوں تک چھپائے رکھا اور خود اسی کی شناخت پر کام کرتی رہی۔ اس نے اس کامیابی سے بھیس بدل کر رکھا کہ صرف چند لوگ ہی جان پائے کہ وہ ایک خاتون ہے۔
میری نے ایک برطانوی فوجی سے شادی کی۔ جس کی وفات کے بعد اس نے بحری سفر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اور کیریبیئن سمندر میں بحری جہاز کی کپتان کے طور پر سفر کرنے لگی۔ بالآخر ایک حملے کے بعد ایک بحری قزاق کلائیکو جیک کے عملے کا حصہ بن گئی۔ وہیں اس نے مرد کا وہ روپ دھارا کہ آج تک اس صلاحیت ہر اسے یاد کیا جاتا ہے۔
سال 1720 میں ایک برطانوی حملے کے نتیجے میں میری اور کلائیکو سمیت تمام عملہ قید کر لیا گیا۔ بعد میں میری ریڈ نے حالت قید میں بخار کی وجہ وفات پائی۔
خواتین بحری قزاقوں کا تزکرہ ہو اور اینے بونی کا نام نا آئے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
اینے ایک آئرش قانون دان کے گھر میں پیدا ہوئی۔ اس نے 1718 میں جیمز بونی نامی ایک چھوٹے سمندری لٹیرے سے شادی کی۔ جس کے بعد دونوں جزائر بہاماس میں منتقل ہو گئے۔ وہیں پہ اینے مشہور قزاق کلائکو جیک کی محبت میں گرفتار ہوئی اور اپنے خاوند سے راہیں جدا کر لیں۔
کلائیکو سے شادی کرنے کے بعد وہ اسی کے عملے کا حصہ بن گئی۔ وہیں پر اس نے میری ریڈ نامی مرد کے بھیس میں خاتون قزاق سے دوستی کی۔ دونوں لٹیرنیوں نے مل کر کیریبیئن سمندر میں وہ دہشت پھیلائی کہ تاریخ آج بھی انہیں خونخوار سمندری لٹیرنیوں کے نام سے یاد کرتی ہے۔
1720 میں برطانوی فوج کے قبضے میں جانے کے بعد سے اینے بونی کے حالات کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔
تاریخ کی بدنام زمانہ سمندری لٹیرنیوں کا تزکرہ کرتے کرتے ہم آ پہنچے ہیں فہرست کے پہلے زینے اور ٹاپ پر موجود خاتون بحری قزاق پر، جس کا نام ہے چنگ سی۔۔۔
چینی خاتون چنگ شی تاریخ کی وہ خوفناک ترین بحری قزاق ہے جس نے انیسویں صدی میں بحیرہ چین میں دہشت پھیلائے رکھی۔ وہ پہلے ایک طوائف تھی جسے سمندری لٹیروں کے ایک گروہ نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ بعد میں چنگ شی نے اسی گروہ کے کپتان شینگ لی سے شادی کر لی۔
شینگ لی نے اسے ایک بحری بیڑے کی کپتان بنا دیا جسے “سرخ علم کا بیڑا” کہا جاتا تھا۔ خاوند کی وفات کے بعد چنگ شی نے نا صرف اپنے بحری بیڑے میں بحری جہازوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ کیا بلکہ بیسیوں چینی و برطانوی جہازوں پر لوٹ مار کی۔
بالآخر اس کی دہشت اور سفاکیت کے سامنے چینی حکومت کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور 1810 میں ایک معاہدہ کیا۔ جس کے بعد شینگ نے یہ کام چھوڑ دیا اور عصمت فروشی کا ایک اڈا چلانے لگی۔ اور 1844 میں طبعی موت کا شکار ہوئی۔