اسلام آباد (ویب ڈیسک) تفصیلات کے مطابق قسمت کا پھیر دیکھیں، پی ٹی آئی چیئرمین کو ایسے وقت میں مائنس ون کا خوف لاحق ہو چکا ہے جب اقتدار کے ایوانوں میں نواز شریف کی واپسی کیلئے میدان سجنے جا رہا ہے۔
چند روز قبل، صحافیوں سے بات چیت میں عمران خان نے اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ انہیں نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ ان کی پارٹی (پی ٹی آئی) کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حیران کن پیش رفت یہ ہے کہ حکومت نے اپنے وکیل (اٹارنی جنرل) کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیر کو پارلیمنٹ سے منظور شدہ ایک ایسے قانون کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے جس پر صدر مملکت دستخط کر چکے ہیں۔
اس قانون کے ذریعے نواز شریف کو سپریم کورٹ میں اپنی 2017ء میں سنائی گئی تاحیات نا اہلی اور سزا کیخلاف اپیل کا حق مل گیا ہے۔
تاہم، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا ہے کہ نئے قانون سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کو فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن کئی دیگر لوگ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
تارڑ کا کہنا ہے کہ نواز اور جہانگیر ترین نظرثانی اپیل کا حق استعمال کر چکے ہیں لہٰذا وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
رابطہ کرنے پر ماہر قانون اور وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی بیرسٹر ظفر اللہ خان نے دی نیوز کو بتایا کہ ’’میری رائے میں اس قانون کے تحت ایسے تمام افراد نئی اپیل دائر کر سکتے ہیں جن کے کیسز پر سپریم کورٹ اس قانون کی منظوری سے قبل فیصلہ سنا چکی ہے،
چاہے پھر وہ سابقہ نظرثانی مسترد ہی کیوں نہ ہو چکی ہو، کیونکہ اب نئے حالات (حقائق اور قانون) سامنے آ چکے ہیں ساتھ ہی اب لارجر بینچ بھی دستیاب ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل خواجہ حارث سے رابطہ کرکے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا نئے قانون سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کو فائدہ ہوگا، تو ان کا کہنا تھا کہ ہاں اس قانون سے دونوں کو اور 1973ء سے تمام لوگوں کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کی منظوری سے پہلے جو بھی فیصلے سنائے جا چکے ہیں؛ ان پر اب نظرثانی ہو سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس قانون کے تحت ریلیف حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں 60؍ روز میں نئی اپیل دائر کرنا ہوگی۔
سپریم کورٹ کے امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی حسنات ملک کے مطابق، نواز شریف اور جہانگیر ترین آرٹیکل 62 (1) (f) کے تحت اپنی نا اہلی کیخلاف اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 62 (1) (f) کے تحت سپریم کورٹ نے نا اہلی کا جو فیصلہ سنایا تھا اس کیخلاف نظرثانی اپیل دائر نہیں کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023ء نامی اس قانون کی منظوری کا نوٹیفکیشن 29؍ مئی بروز پیر جاری کیا گیا۔ اس قانون کے تحت وہ افراد سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کر سکتے ہیں جو آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس سے متاثر ہوئے تھے۔ ایسے کیسز میں نظرثانی پٹیشن کی سماعت اصل فیصلہ یا آرڈر جاری کرنے والے بینچ کے مقابلے میں لارجر بینچ کرے گا۔
ایکٹ کے مطابق، اصل آرڈر جاری ہونے کے 60؍ روز بعد ریویو پٹیشن دائر کی جا سکے گی۔ تاہم، نواز شریف اور جہانگیر ترین کے ماضی کے مقدمات کا احاطہ کرنے کیلئے قانون ان متاثرہ افراد کو نظرثانی پٹیشن دائر کرنے کا حق دیتا ہے جن کے مقدمات کا فیصلہ آرٹیکل 184(3) کے تحت اس ایکٹ کی منظوری سے قبل کیا گیا تھا۔
کئی لوگ حیران ہیں کہ آخر صدر عارف علوی اس قانون پر دستخط کیلئے رضامند کیسے ہوگئے، کیونکہ اس سے غالب امکان ہے کہ نواز شریف کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس سے قبل ایک بل (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ 2023ء) پارلیمنٹ نے منظور کیا اور بعد میں نافذ ہوا، اس پر صدر مملکت نے دستخط نہیں کیے تھے،
جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس کے باضابطہ نفاذ سے قبل حکم امتناع جاری کر دیا تھا، اور اسے صدر کے پاس دستخط کیلئے بھیجا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس قانون کے نفاذ کو روک دیا تھا۔ اب کئی لوگوں کی رائے ہے کہ سپریم کورٹ (ریویو اینڈ ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کے ساتھ کئی دیگر لوگوں کو سپریم کورٹ میں اپنی نا اہلی کیخلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے کا حق مل جائے گا۔ یاد رہے کہ 2017ء میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا کر انہیں الیکشن لڑنے یا کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے کیلئے تاحیات نا اہل قرار دیا تھا۔ بعد میں، 2018ء میں سپریم کورٹ نے انہیں پارٹی کی صدارت کے عہدے سے بھی نا اہل قرار دیدیا۔ جس مائنس ون فارمولا کا اطلاق نواز شریف پر کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں عمران خان وزیراعظم بن کر سامنے آئے۔ اب لگتا ہے کہ کہانی الٹی چلنے لگ گئی ہے اور ریورس انجینئرنگ پر عمل ہو رہا ہے۔