ڈیلی دھرتی (ویب ڈیسک) تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں اس سال سردیوں کے موسم کی شدت میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی موسم سرما کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی جنوری کا مہینہ موسم سرما کا سردترین عرصہ شمار کیا جاتا ہے لیکن اس برس سردی کی شدت غیرمعمولی بیان کی جا رہی ہے۔
موسموں میں تغیر و تبدل یا غیرمعمولی شدت عموماً کسی مخصوص علاقے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کا تعلق ہماری دنیا کے وسیع تر موسمیاتی نظام کے ساتھ ہوتا ہے۔ حالیہ موسم سرما میں ہمارے ہاں نظر آنے والی شدت دراصل دنیا کے سرد علاقوں میں سردی کی شدت میں غیرمعمولی اضافے ہی کا نتیجہ ہے۔
اگر ہم اس حوالے سے دنیا پر نظر ڈالیں تو ہماری دنیا کے سردترین آباد علاقوں میں سے ایک ’یاقوتسک‘ شہر ہے۔ روس کے دارالحکومت ماسکو کے مشرق میں 5 ہزار کلومیٹر دور سائیبریا کے طویل و عریض خطے میں واقع اس شہر میں سال کا زیادہ تر عرصہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ہی رہتا ہے۔
اس شہر میں فریج اور ایئرکنڈیشنر کے استعمال کا کوئی تصور نہیں۔ موسم سرما میں بچوں کا محبوب مشغلہ پانی کو ہوا میں اچھالنا ہے جو ہوا میں پہنچتے ہی برف بن جاتا ہے اور برف کی پھوار کی صورت زمین پر گرتا ہے۔ اس برس موسم سرما میں ’یاقوتسک‘ کا درجہ حرارت بھی نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے۔
عموماً جنوری کے مہینے میں یہاں درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سے منفی 50 ڈگری تک رہا کرتا تھا لیکن اس برس شہر میں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری کو عبور کرچکا ہے۔ ’یاقوتسک‘ کے لوگ سردی کے بارے میں عموماً یہی کہا کرتے ہیں۔ ’’سردی کی مناسبت سے لباس پہنو، ورنہ بھگتو‘‘۔
یہاں کی ایک شہری خاتون کا کہنا تھا کہ ٹھنڈ کا مقابلہ کرنے کا کوئی خفیہ راز تو ہے نہیں۔ آپ کو یہ کرنا ہے کہ ذہنی طور پر خود کو مطمئن رکھیں کہ ہر چیز معمول کے مطابق ہے اور کپڑے یوں پہنیں جیسے آپ بند گوبھی ہیں۔
دنیا کے دیگر علاقوں کا تقابل کریں تو اس وقت دنیا کے 20 سرد ترین مقامات میں 13 کینیڈا میں واقع ہیں۔ سردی کی شدت میں پہلی اور دوسری پوزیشن تو بالترتیب روس اور امریکا کے پاس ہے۔ پہلے نمبر پر روس کا شہر ’یاقوتسک‘ ہے جہاں درجہ حرارت منفی 53 تک پہنچ چکا ہے
جبکہ دوسرا سرد ترین مقام الاسکا کا علاقہ ’ایگل‘ ہے جہاں درجہ حرارت منفی 51 ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح تیسرا سرد ترین علاقہ کینیڈا کا شہر ڈاسن ہے جہاں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر چکا ہے۔
یہاں واقع ’ڈیز‘ نامی جھیل شیشے کی طرح جمی ہوئی ہے اور کینیڈا کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے تصور سے ہی انسان کانپنے لگتا ہے۔
کینیڈا میں واقع دو مزید مقامات ملک کے شمال مغرب میں ’ڈیڈمین ویلی‘ (مردوں کی وادی) اور ’بڑواش یاکون‘ منفی46 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہیں۔ کینیڈا کیونکہ قطب شمالی کی یخ بستہ ہوائوں کی زد پر رہتا ہے لہٰذا یہاں پر شدید سردی کی لہروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اب بھی روزانہ اس طرح کے درجنوں اعلانات جاری ہوتے رہتے ہیں جن میں لوگوں کو سردی سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
ہمارے اپنے ملک کے برعکس ان سرد علاقوں میں موسم سرما کے حوالے سے خود کو محض شدید موسم سے بچانا ہی سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ یہ موسم اور کئی طرح کے خطرات بھی پیدا کردیتا ہے۔
مثال کے طور پر موسم سرما کے دوران روس کے ہسپتالوں میں برف کی قلموں سے زخمی ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ ریڈیو، ٹی وی اخبارات اور دیگر ذرائع سے لوگوں کو مسلسل خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ برف باری کے موسم میں دکانوں کے چھجوں اور عمارتوں کے، باہر کو اُبھرے ہوئے کناروں کے نیچے ہرگز کھڑے نہ ہوں، نا ہی ان کے نیچے سے گزریں کیونکہ برف باری کے بعد جب دن میں موسم کچھ بہتر ہوتا ہے تو برف پگھلنے لگتی ہے
لیکن شام کے قریب درجہ حرارت پھر گرنے لگتا ہے جس کے باعث یہ پگھلتی ہوئی برف نوک دار نیزوں کی طرح چھجوں اور اُبھری ہوئی سطحوں سے نیچے لٹک کر جم جاتی ہے۔ جب سردی شدید تر ہوجاتی ہے تو یہ قلمیں تڑخ کر اپنے ہی وزن کے ساتھ اچانک نیچے گرتی ہیں اور اگر کوئی ان کی زد میں آجائے تو یہ کسی خنجر کی طرح انسان کے جسم میں پیوست ہوجاتی ہیں۔
ایسی کوئی برفانی قلم اگر کسی بدنصیب کے سر پر آلگے تو اس کا زندہ بچنا ممکن نہیں رہتا۔ سخت سردی اور برف باری کے موسم میں روس کے ہسپتالوں میں مذکورہ صورتحال سے نمٹنے کے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں۔
اب اگر ہم غیرآباد سرد مقامات کا ذکر کریں تو قطب جنوبی میں 2010 ء میں منفی 94 ڈگری درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اسے دنیا کا سرد ترین براعظم قرار دیا جاتا ہے۔
اس علاقے میں ’واسٹوک‘ کا تحقیقاتی اسٹیشن بھی قائم ہے۔ اگر خلائی سیاروں کے بھیجے اعداد و شمار کے بجائے اس اسٹیشن پر ریکارڈ کئے گئے درجہ حرارت کی بات کی جائے تو 1983 میں یہاں منفی 89.2 درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دنیا کے اس سرد ترین مقام پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ دھوپ بھی چمکتی ہے۔
مثال کے طور پر ہر سال دسمبر کے مہینے میں یہاں دن میں 22 گھنٹے سورج چمکتا ہے۔ قطب جنوبی میں ’ایمنڈسن اسکاٹ‘ تحقیقاتی مرکز بھی قائم ہے۔ یہ تحقیقاتی مرکز سطح سمندر سے 2835 میٹر بلند ہے۔
یہاں کم سے کم درجہ حرارت کا ریکارڈ منفی 82.8 ہے جبکہ ہر برس یہاں 10 میٹر تک برف پڑتی ہے۔ اسی طرح ’مائونٹ ڈینالی‘ امریکا کے حصے الاسکا میں واقع امریکا کے بلندترین پہاڑ کو بھی دنیا کے سردترین مقامات میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت منفی 73 تک گرچکا ہے۔
سردترین مقامات میں ایک جگہ مشرقی سائبیریا میں واقع ’رپبلک آف ساکھا‘ میں آباد قصبہ ’روئے مایاکون‘ بھی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں لوگ جزوی طور پر آکر رہتے بھی ہیں۔ اس قصبہ میں ایک یادگار تعمیر کی گئی تھی جو 1924 ء میں اب تک کے کم ترین درجہ حرارت کی یاد دلاتی ہے۔ اس یادگار پر منفی 71.2 کے ہندسے کندہ ہیں۔
قطب شمالی میں واقع گرین لینڈ میں بھی ’نارتھ آئس‘ نامی ایک ریسرچ اسٹیشن موجود ہے جسے 69 برس قبل خالی کردیا گیا ہے۔ اس تحقیقاتی مرکز کے ریکارڈ سے حاصل ہونے والی معلومات بتاتی ہیں کہ 1954 ء میں یہاں کم سے کم درجہ حرارت منفی 66.1 ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہمارا ملک بھی حالیہ دنوں میں شدید سردی کی ایک لہر کو جھیل رہا ہے جبکہ محکمہ موسمیات کی اطلاعات کی مطابق سردی کی دوسری لہر بھی آنے کو تیار ہے۔
کراچی جیسا معتدل آب و ہوا والا شہر بھی سردی کی زد میں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جنوری کے مہینے میں کراچی میں ایسی سردی نہیں دیکھی گئی۔ گزشتہ اتوار کا دن اب تک کا سردترین دن تھا
جب کراچی شہر کا درجہ حرارت 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہا۔ کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جنوری کے مہینے میں اس قدر سردی کا سامنا نہیں کیا۔ اگر کراچی کے موسم کے بارے میں معلوم ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو ماضی میں سال 1934ء کے جنوری کے مہینے میں کراچی کا درجہ حرارت ایک مرتبہ صفر ہوا تھا۔
سردی کی یہ لہر صرف کراچی شہر تک محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں گرم آب و ہوا کی شہرت رکھنے والے سندھ کے دیگر علاقے بھی سردی کی لپیٹ میں ہیں۔
مثال کے طور پر موئنجوڈارو میں درجہ حرارت ایک ڈگری، سکھر میں 3، ٹنڈو جام میں 3، مٹھی میں 1.5، لاڑکانہ میں 4، جیکب آباد میں 5 جبکہ حیدرآباد اور ٹھٹھہ میں 6 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر چکا ہے۔
اب جب ملک کے گرم علاقوں میں موسم کی شدت کا یہ عالم ہے تو بلوچستان، بالائی خیبرپختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان میں سردی کا کیا عالم ہوگا۔
کوئٹہ اور اس کے قریبی علاقوں میں درجہ حرارت منفی10 ڈگری تک گرچکا ہے جس کے باعث گھروں کو فراہم کیا جانے والا پانی پائپوں کے اندر جم گیا ہے۔