ڈیلی دھرتی (ویب ڈیسک) تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں خصوصی طور پر شرکت کی۔ انہیں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے مدعو کیا تھا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’سیاست میرا میدان نہیں، میرا میدان قانون ہے۔ میں آئین کی گولڈن جوبلی تقریب کے لیے آیا ہوں۔ پہلی بار اسمبلی سے دعوت ملی میں حاضر ہوا ہوں۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ یہاں سیاسی نہیں آئینی باتیں ہوں گی۔ یہاں جو باتیں ہوئی ان کی آئین میں آزادی ہے۔ میری موجودگی میں جو سیاسی باتیں ہوئیں ہیں ان سے متفق نہیں ہوں‘۔
قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ’ہمارا کام قانون اور آئین کے مطابق جلد از جلد فیصلے کرنا ہے۔ اللہ کی کتاب کے بعد آئین کی کتاب کا سایہ ہمارے سروں پر ہے۔ پارلیمان اور بیوروکریسی سمیت سب کا ایک مقصد عوام کی خدمت ہونا چاہیے‘۔
ان کا کہنا تھا ’بلوچستان میں آئینی بحران کے حل کے لیے مجھے چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بنایا گیا۔ ہم کبھی دشمن سے اتنی نفرت نہیں کرتے جتنی ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ تقسیم ہند نہ ہوتی تو مسلمان بطور اقلیت ہندوستان میں رہتے‘۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ‘دیگر جج صاحبان مصروف تھے اس لیے نہیں آ سکے۔ اپنے ادارے کی طرف سے کہتا ہوں کہ ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ’10 اپریل 1973 کو پاکستان کا متفقہ آئین منظور کیا گیا۔ آئین کی کتاب ہماری اور پاکستان کی پہچان ہے۔ کہا 2014 سے آپ کا ہمسایہ ہوں۔ پیدل جاتا ہوں اور سوچتا ہوں اندر کیا ہوتا ہوگا۔ آپ نے پہلی بار دعوت دی اور ہم حاضر ہوئے‘۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ’قانون ہمارا میدان ہے۔ ہم نے تنقید بھی سنی ہے۔ عدلیہ کا کام ہے آئین اور قانون کے مطابق جلد فیصلے کرے۔ آئین پاکستان میں عوام کے بنیادی حقوق کا تذکرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے افسوس کی بات ہے کہ آئین کو سکول میں نہیں پڑھایا جاتا۔ جب لوگ سمجھ جائیں گے کہ آئین میں خوبصورت بنیادی حقوق ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریاست کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے۔
یہ کتاب پاکستان کی پہچان ہے، یہ متفقہ دستور ہے، اس کو پہچاننا چاہیے اور سمجھنا چاہیے۔ میں نے دو بار حلف اٹھایا، پہلی بار بلوچستان کے ہائیکورٹ کے مطابق حلف اٹھایا۔ مجھے اس وقت کے چیف جسٹس نے بلایا تو معلوم نہیں تھا کیوں بلایا گیا۔ معلوم ہوا کہ وہاں آئینی بحران ہے اس لیے بلوچستان چلے جائیں۔ میں اکیلا جج تھا جو وہاں گیا اور ججز تقرر کیے پھر یہاں آگئے۔
جسٹس فائز عیسی نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ سیاسی باتیں تو نہیں ہوں گی تو کہا گیا نہیں آئینی باتیں ہوں گی۔ لیکن سیاسی باتیں ہوئیں، خیر کل مقدمات ہوں گے آپ کے خلاف بھی آئیں گے۔ کل انہی لوگوں کے خلاف فیصلے دوں گا تو شاید یہی لوگ مجھ پر الزام لگائیں‘۔