سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم دبئی پہنچ گئی ہے۔
9 نومبر کو ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے امریکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ صحافی ارشد شریف کی موت کے حوالے سے تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات ابھی مکمل نہیں ہوئیں، تحقیقات کا دائرہ مزید بڑھایا جائے گا اور ٹیم اب متحدہ عرب امارات جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صحافی ارشد شریف قتل کیس کی 2 رکنی تحقیقاتی ٹیم دبئی پہنچ گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق تحقیقاتی ٹیم دبئی میں ارشد شریف کے میزبان اور نجی ہوٹل انتظامیہ سے ملاقات کرے گی، جب کہ پاکستانی مشن حکام اور دبئی میں مقیم پاکستانیوں سے بھی ملے گی۔
ڈی جی ایف آئی اے کا انٹرویو
امریکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے محسن بٹ کا کہنا تھا کہ یقین ہے کہ کینیا پولیس صحافی ارشد شریف کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔
ڈی جی ایف آئی اے نے وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ کینیا پولیس نے دعویٰ کیا کہ ارشد شریف کی گاڑی سے ان پر فائرنگ ہوئی اور ان کا ایک افسر زخمی ہوا، لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اس زخمی افسر کو پاکستان سے گئی ہوئی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش کرنے سے انکار کیا، جب کہ اس افسر کا بیان انتہائی اہم ہوتا۔
ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ صحافی ارشد شریف پر فائرنگ کرنے والے کینیا پولیس کے چار شوٹرز تھے، جن میں ایک کو تو پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کےسامنے نہیں لایا گیا، جب کہ تین شوٹرز کے بیانات میں تضاد تھا اور ان کے بیانات غیرمنطقی تھے۔
ڈی جی کے مطابق تینوں شوٹرز نے اسی مؤقف کو دہرایا جو کینیا کی پولیس میڈیا کو بتاچکی ہے کہ انہوں نے ایک گاڑی کو ناکے پر روکا، لیکن گاڑی نہ رکی جس پر پولیس نے فائرنگ کی اور گاڑی سے جوابی فائرنگ کی گئی۔
محسن بٹ نے مزید کہا کہ کینیا کی پولیس بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک صحافی کے اس طرح کے سفاکانہ قتل جیسے جرم کی تحقیقات میں تعاون کی پابند ہے۔