تحریر: عابد حسین رانا
سیاسی لحاظ سے کسی ملک کی مقدس ترین دستاویز عوام کی طرف سے متفقہ طور پر منظور شدہ آئین ہوتی ہے، جس کی بے حرمتی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم مانا جاتا ہے، جبکہ خلاف ریاست اور خلاف آئین عمل کو غداری کہتے ہیں۔ معتبر عہدیداران آئین کی تقدس حفاظت اور اس پر عمل کرنے کا حلف لیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بذات خود معزز مکرم اور عزت مآب کہلانے کے حقدار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایک بندوبست کے تحت آئین و قانون کے مخالفین کو عوام کے سامنے ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، اس لئے دس پندرہ سال تک آئین پامال کرنے والا نہ آئے تو عوام تنگ آ کر ایسا ہونے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔
کالونیل ازم میں قبضہ گیر آ کر خود مقبوضہ ملک میں بیٹھ جاتا تھا اور نیو کالونیل ازم میں اس کا قابل اعتماد کارندہ اپنے ملک پر صدر وزیراعظم یا جرنیل بن کر حکومت کرتا ہے۔ ہندوستان کی غلامی کے دور میں یہ دونوں نظام ہندوستان میں بیک وقت موجود تھے۔ برٹش انڈیا بلا واسطہ انگریز کے قبضے میں تھا اور دیسی ریاستیں بالواسطہ۔ دیسی ریاستیں انگریز کے ساتھ مٹ گئیں لیکن بالواسطہ حکومت کرنے والے ختم ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہو گئے۔
بالواسطہ حکومت کرنے والا سب سے پہلا وار آئین پر کرتا ہے۔ کبھی اسے منسوخ کبھی معطل اور کبھی ترامیم زدہ کر کے اس کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے۔ اور جب اس سے آئین کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ اسے کاغذ کا ٹکڑا یا پچیس صفحات کا کتابچہ کہہ کر نظر انداز کرنے کا کہتا ہے۔ کبھی کہتا ہے آئین نہیں ملک ضروری ہے، جیسے آئین ملک کا دشمن ہو اور کبھی صدارتی ایرانی سعودی اور چینی نظام کی تعریفیں کر کے اپنی ڈکٹیٹرشپ کی خواہش کا اعتراف کرتا ہے۔
آرمی ایک بہت منظم اور مدارج یافتہ ادارہ ہے۔ جہاں حکم اہرامی انداز میں اوپر سے نیچے کی طرف عمل کرتا ہے۔ لیکن اس اہرام کے اوپر کوئی فرعون نہیں بیٹھتا بلکہ دوسروں سے چند سال سینئر اور قابل افسر محدود مدت کے لئے باہمی مشاورت کے ساتھ ادارے کو لیڈ کرنے آتا ہے۔ اس لئے مارشل لاء لگانے اور حکومت چلانے میں اکیلے اس کی مرضی اور خواہش شامل نہیں ہوتی۔ اور وہ نہ چاہے تو اس کے کمانڈرز اسے ایسا کرنے پر مجبور بھی نہیں کر سکتے، جس کی مثالیں اسلم بیگ اور وحید کاکڑ ہیں۔
پاکستان میں آئین سے الرجک صرف طالع آزما جرنیل نہیں سیاست سے بے بہرہ عوام اور کچھ سیاست دان بھی ہیں۔ لیکن جرنیلوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ آئین سے کھلواڑ کرے تو مطعون کیے جاتے ہیں اور ایسا کوئی سیاسی طالع آزما کرے تو اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
’پراجیکٹ عمران‘ میں ادارہ جاتی فیصلے کے مطابق سیاست دانوں کو دیس نکالا دیا گیا تاکہ روک ٹوک والا کوئی نہ ہو، تو اس پراجیکٹ کی ذمہ داری ایک لیفٹیننٹ جنرل صاحب کو دی گئی۔ (یہ پراجیکٹ غیر آئینی اور غیر قانونی تھا) ۔ پراجیکٹ ناکام ہوا تو ایوب ضیاء یحییٰ اور مشرف کی طرح سارے الزامات لیفٹیننٹ جنرل صاحب پر ڈال دیے گئے اور انہیں نئی ذمہ داریاں تفویض کر دی گئیں۔ وقت نے دیکھا کہ انہی ذمہ داریوں کو نبھانے کے دوران اسی حکومت کا سربراہ مع اپنی انتوراج کے اسی جنرل سے سلامی اور بریفنگ لینے چلا گیا، جنہیں پوسٹر بوائے بنایا گیا تھا۔
جنرل نے بڑے پروفیشنل اور جنٹلمین انداز میں ان سارے لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر بریفنگ دی جو چند مہینے پہلے اس کا نام لے کر اسے الزام دیتے تھے۔ نہ اس نے اس میں اپنی سبکی محسوس کی نہ ’غدار‘ کہہ کر بریفنگ دینے سے انکار کیا اور نہ بیماری کا بہانہ بنا کر ہسپتال میں داخل ہوا۔ لیکن پھر بھی عوام کے ایک حصے اور حکومتی کرتا دھرتاؤں کا ولن ایک جنرل ہے۔
آئین طے کرتا ہے کہ ملک کے اندر کون کیا اختیارات رکھتا ہے اور ان اختیارات کو کیسے اور کب تک استعمال کرے گا؟ آئین عہدوں کی تکریم طے کرتا ہے اور عہدیدار کو اس تکریم میں حصے دار بناتا ہے۔ آئین کی چھتری کے بغیر عارف علوی محض ایک دندان ساز اور پی ٹی آئی کے دوسرے درجے کا رہنما ہے۔ اسی طرح آئین نے صوابی کے اسد قیصر کو کالے گاؤن کے ساتھ قانون ساز اسمبلی کی وہ نشست عطا کی جس کے نیچے ملک کا وزیراعظم بیٹھا ہوتا ہے۔ اور آئین ہی نے مشکوک ترین الیکشن کی وجہ سے اسمبلی میں پہنچنے والے قاسم سوری کو اسد قیصر کا قائم مقام بنا کر اس جتنی عزت اور وقار بخشا۔
اگر جنرل مشرف آئین کو پامال کرے تو ڈکٹیٹر کہلاتا ہے لیکن ہاؤس کے نگہبان آئین کے پرخچے اڑائے تو انہیں سابقہ سپیکر کے سارے مراعات اور اعزازات کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے اور اسمبلی کے برآمدوں میں ان کی تصویریں لگا دی جاتی ہیں۔
اگر فوجی افسر اپنے فرائض میں کوتاہی کرے تو اس سے باز پرس ہوتی ہے وہ آرمی کے قواعد و ضوابط کی شدید خلاف ورزی کرے تو اسے بدترین سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن عارف علوی اسد قیصر قاسم سوری اپنے آئینی کردار ادا کرنے سے یکسر انکار کر کے اونچی کرسیوں سے آئین کی لاش پر گریں تو انہیں تنخواہیں مراعات اور تکریم دی جاتی ہے۔ اعلیٰ ترین آئینی عہدوں پر براجمان اسد قیصر اور قاسم سوری نے جس شرمناک انداز میں آئین سے وفاداری کے برخلاف اور اپنے مناصب کے وقار کے منافی اپنی ذاتی دوستی اور شخصی وفاداریوں کو ترجیح دی اگر ایسا کوئی سپاہی اپنے ادارے اور حلف کے ساتھ کرتا تو ابھی تک نشان عبرت بنایا جا چکا ہوتا۔ جس طرح اسد قیصر نے اسمبلی میں اپنا آئینی کردار ادا کرنے کی بجائے استعفیٰ دے کر خود کو سب آئینی ذمہ داریوں سے سبکدوش سمجھا، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی شخص عہدے سے استعفیٰ دے کر آئین کی وفاداری اور احترام سے مبرا ہوجاتا ہے یا آئین کا احترام صرف حلف لینے تک محدود ہے؟
دوسری طرف عارف علوی جس صدارتی محل میں مقیم ہے کیا وہ گھر اور اس کے اوپر لہرانے والا جھنڈا اس کو وراثت میں ملا ہے؟ یا وہ شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین ہے؟ اگر وہ پی ٹی آئی کا صدر ہے تو پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ اس کی ذمہ داریاں ختم ہو گئی ہیں اور اگر وہ صدر پاکستان ہے تو اس کا کردار اور رویہ آئین کے طے کردہ اصولوں کا متقاضی ہے۔ اگر وہ آئینی کردار اور ذمہ داریوں سے زیادہ اہم پارٹی پالیسی اور شخصی وفاداری کو سمجھتا ہے تو اسے اونچی کرسی سے اتر کر اپنے قد کے برابر والی کرسی پر براجمان ہونا چاہیے۔
اگر کوئی جنرل اپنے حلف سے وفاداری نہ کرے تو ڈکٹیٹر کہلائے گا لیکن عارف علوی، اسد قیصر اور قاسم سوری حلف کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کریں تو ایک عزت مآب اور صدر ذی وقار اور باقی دو تمام مراعات کے ساتھ سابقہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کہلاتے ہیں۔
تاریخی کردار وقت عطا کرتا ہے لیکن اس کردار کے ساتھ انصاف کرنا آپ کے ذاتی کردار پر منحصر ہوتا ہے۔ فرائض کی ادائیگی کے دوران آپ جنرل بن کر سیلوٹ مارنے کے بعد بریفنگ دیتے ہیں یا عارف علوی اسد قیصر اور قاسم سوری کی طرح اونچی کرسیوں کے چھوٹے عہدیدار بن جاتے ہیں، فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
نوٹ: بلاگ میں پیش کی جانے والی آراء مصنف کی خالصتاً ذاتی آراء ہیں۔ ادارہ ڈیلی دھرتی کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔