ڈیلی دھرتی (ویب ڈیسک) تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا جاتا تو یہ حتمی فیصلہ ہوتا ہے، ہمیں بتایا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، آئین کے مطابق چلنے کی ضرورت ہے کوئی بہانہ تلاش نہیں کرنا چاہیے۔
لاہور کے نجی ہوٹل میں “دستور پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل حقوق” کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ جسٹس اے آر کارنیلیئس نے بہترین خدمات انجام دیں، انہوں نے 23 سال کی عمر میں آئی سی ایس پاس کیا، جسٹس کارنیلیئس نے سپریم کورٹ کو 17 سال دیئے، وہ جوڈیشل سسٹم کیلئے طرہ امتیاز تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جسٹس اے آر کارنیلیئس ایک اچھے قانون دان اور سادگی پسند تھے، 1955میں انہوں نے گورنر جنرل کے اسمبلیوں کی تحلیل کو غیر قانونی قرار دیا، پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے، آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے، 1964 میں 2 صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی، مولانا مودودی کیس میں پابندی ہٹا دی گئی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا ہے کہ پاکستان دو دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار ہے، پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں، عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کر سکتیں، پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں، بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کا حق ہے، جب سچائی سے گریز کیا جائے تو انصاف سے گریز کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ججز میں انصاف کرنے کیلئے جسٹس کارنیلیئس جیسے اوصاف ہونے چاہئیں، عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے، جسٹس کارنیلیئس نے کہا تھا ایگزیکٹو آفیسر بنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کر سکتے، ہر شخص قانون کے تابع ہے، معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے، ملکی ترقی کا واحد راستہ علم ہے