مُلکی معیشت کی بدحالی کے سبب جنم لینے والی منہگائی اپنی جگہ، لیکن حالات اگر اچھے ہوں، تب بھی تاجر رمضان المبارک میں نرخوں میں مَن مانا اضافہ ضرور کرتے ہیں، گویا اِس ماہ میں منہگائی ایک فیشن اور روایت ہے، حالاں کہ دنیا میں تاجر ایسے مذہبی تہواروں کے موقعے پر اشیائے ضروریہ پر خصوصی رعایتی پیکیجز دیتے ہیں، مگر پاکستان میں ماہِ رمضان اور عیدین پر اکثر تاجر، دُکان دار اور دیگر کاروباری افراد مصنوعی منہگائی پیدا کرکے عوام کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔
ماہِ رمضان سے پہلے کھجوروں، آلوئوں، بیسن، پیاز، پھل اور دیگر اشیاء کی ذخیرہ اندوزی عام ہے۔ اِس مہینے مختلف اشیاء کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ناجائز منافع خور اس سے خُوب فائدہ اُٹھانے کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ سموسوں، کچوریوں، فروٹ چاٹ، پھلوں اور مشروبات کی قیمتیں دُگنی ہو جاتی ہیں۔ پھر بعض دکان دار ملاوٹ شدہ اشیاء بھی فروخت کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ وہ خلافِ دین ہتھکنڈے ہیں، جو رمضان المبارک کو کہیں منہگا بنا دیتے ہیں، لیکن جب عوام پہلے ہی منہگائی کے عفریت میں جکڑے ہوئے ہوں،تو تاجروں اور دُکان داروں کا یہ طرزِ عمل روزہ داروں کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوتا ہے۔ 2023ء کا رمضان المبارک کچھ ایسے ہی حوصلہ شکن حالات سے دو چار ہے۔
یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان اِن تکلیف دہ حالات سے دو چار کیوں ہوا اور اس نہج پر پہنچا کیسے کہ روزہ داروںتک کو اسلامی تعلیمات اور روایات پر عمل کرنے میں سہولتوں اور آسانیوں کی بجائے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ماہر معاشیات، پروفیسر ڈاکٹر محمّد شریف علوی نے اِس سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ’’ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم شروع ہی سے پاکستان کا ایک سنگین مسئلہ رہی ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ 75سالوں میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا گیا۔ مُلکی وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ ہے، جس کی شرح صرف 15، 20 فی صد ہے، جب کہ باقی 80فی صد لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں صاف پانی، صحت اور تعلیم تک سے سے محروم ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر سال رمضان المبارک اور دیگر اسلامی تہواروں کے موقعے پر منہگائی کا ایک طوفان آجاتا ہے۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’مَیں کوئی لمبی چوڑی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ فروری 2023ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سیاست دان امیر ہو گئے اور عام پاکستانی غریب۔ رپورٹ کے مطابق ،ارکانِ اسمبلی کی مجموعی دولت میں 85فی صد اضافہ ہوا، جب کہ ایک عام پاکستانی کی فی کس آمدنی ایک ہزار 641ڈالر سے کم ہو کر ایک ہزار 497 ڈالر رہ گئی۔ اِس کے برعکس، گزشتہ 5سال میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ایک ہزار، ایک سو ستّر ارکان کے مجموعی اثاثے 49ارب سے بڑھ کر 91ارب ہو گئے۔‘‘
سرکاری پیکیجز بھی فائدہ مند نہیں
ماضی کی طرح اِس بار بھی وفاقی حکومت نے روزہ داروں کے لیے یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے 5ارب کے پیکیج کا اعلان کیا ہے، لیکن اِس بار بھی اس کی افادیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اوّل تو یہ رقم کثیر آبادی کے لیے ناکافی ہے، پھر یہ کہ اشیاء کی تقسیم اور معیار پر بھی ہمیشہ سے سوالات اُٹھتے رہے ہیں۔ اِس بار رمضان ریلیف پیکیج دو طقبات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی ایک ارب 15کروڑ روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے اور تین ارب 84 کروڑ عام صارفین کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
مجموعی طور پر 19اشیاء پر ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا، جن میں گھی، آٹا، چینی، دالیں، کوکنگ آئل، کھجور، مشروبات، مرچ مسالے اور چائے کی پتی وغیرہ شامل ہیں، لیکن ماضی میں یوٹیلیٹی اسٹورز کا سامان عام مارکیٹ میں فروخت ہوتا رہا ہے۔ نیز، عوام کی اکثریت مختلف وجوہ کی بنا پر یوٹیلیٹی اسٹورز کا رُخ نہیں کرتی۔ اس کے برعکس، حکومت رمضان المبارک اور عید کے دَوران اشیاء کی مصنوعی قلّت، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور قیمتوں میں بے لگام اضافے کے خلاف کسی قسم کا اقدام نہیں کرتی، سرکاری پرائس لسٹ پر کبھی عمل نہیں ہوتا اور دُکان دار مَن مانی قیمتوں پر غیر معیاری اشیاء فروخت کرتے ہیں۔
اِن حالات میں پاکستانی عوام صبر اور شُکر سے کسی نہ کسی طرح ماہِ مبارک کے دینی تقاضے تو پورے کر ہی لیں گے، لیکن اُنہیں منہگائی کے ایک اور عفریت کا سامنا کرنا پڑے گا، جو عید الفطر کی صُورت اُنہیں نظر آ رہا ہے۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ اکثر تاجر اور دُکان دار حسبِ معمول رمضان کی کسر عید پر اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کرکے پوری کریں گے اور عوام کو منیر نیازی کے اِس شعر کے مِصداق حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔؎ اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو…مَیں ایک دریا کے پار اُترا، تو مَیں نے دیکھا۔