آئی ایم ایف کیا ہے؟ کیسے کام کرتا ہے؟ آئی ایم ایف کو فنڈ کون دیتا ہے، مکمل معلومات
آئی ایم ایف سے متعلقہ وہ تمام معلومات جو آپ کو لازمی جاننا چاہییں
ویب ڈیسک
حال ہی میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جس کے تحت پاکستان کو قرض کی مد میں ایک ارب سترہ کروڑ ڈالرز کی اقساط ملنے کی نوید سنائی گئی ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کے لیے حکومت کو کئی ماہ تک مذاکرات کرنا پڑے۔ ان گنت اعلانیہ اور غیر اعلانیہ شرائط پر پیشگی عملدرآمد کروانا پڑا۔ جس کے بعد باہمی اتفاق رائے قائم ہو سکا۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑتے ہیں۔ آئی ایم ایف کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ کیسے آئی ایم ایف عالمی سطح پر مختلف ممالک کو قرض دینے کے قابل ہے۔ آئی ایم ایف کا فنڈنگ سورس کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں۔ یہ سب آپ اس مضمون کے ذریعے جان سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف کیا ہے؟
آئی ایم ایف دراصل انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا مخفف ہے۔ اسے اردو میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو مملکتوں کی سطح پر ان کی معیشت، ممالک کے زر مبادلہ اور بیرونی قرضہ جات پر گہری نظر رکھتا ہے اور ان ممالک کی معاشی فلاح و بہبود اور مالی خسارے پر قابو پانے کے لیے قرض اور دیگر مالیاتی مد میں مدد کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کی تاریخ
دنیا بھر میں انیسویں صدی سے باہمی کرنسیوں کے تبادلے کے لیے گولڈ یعنی سونے کا اسٹینڈرڈ نظام نافذ تھا۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے دوران سونے جیسی قیمتی دھات کی عالمی سطح پر شدید قلت پیدا ہو گئی۔ اس زمانے میں برطانوی پاونڈ کو کرنسیوں میں مرکزیت حاصل تھی۔ لیکن جنگ کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے برطانیہ نے بڑی تعداد میں پاونڈ چھاپنا شروع کر دیے اور یہ بھی خیال نہ رکھا کہ اس کے مقابل مقررہ مقدار میں سونے کے ذخائر موجود ہیں یا نہیں۔ نتیجہ نہ صرف پاؤنڈ پر عدم اعتماد کی صورت نکلا بلکہ جنگی اخراجات کے باعث عالمی سطح ادائیگیوں میں بھی عدم توازن دیکھنے میں آیا۔ اس تمام تر صورتحال سے نمٹنے کے لیے دنیا کی 29 معیشتوں نے 1945 میں ایک معاہدہ کیا۔ جسے بریٹن ووڈز معاہدے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق طے پایا کہ:
- دنیا کے لیے ایک نیا اور پراعتماد مالیاتی نظام تشکیل دیا جائے
- یہ نظام ان ممالک کی مدد کرے، جو توازنِ ادائیگی کے مسائل کا شکار ہیں
- رکن ممالک کے زر مبادلہ کی شرح کا درست تعین کیا جائے اور اس کے لیے ایک نظام وضع کیا جائے۔
اس معاہدے کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اس وقت آئی ایم ایف کی کیا صورتحال ہے؟
بنیادی طور پر آئی ایم ایف کا اقوام متحدہ سے الحاق کیا گیا ہے۔ اور اس کے رکن ممالک میں ان تمام ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جو کہ آئی ایم ایف کے آرٹیکل آف ایگریمنٹ کے تحت رقوم فراہم کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت ادارے کا دائرہ کار 190 ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ اس وقت 150 کے قریب ممالک میں آئی ایم ایف کا اسٹاف کام کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف قوانین کے مطابق اس کے ہر رکن ملک کو اس کی قومی آمدنی اور بین الاقوامی تجارت کے حساب سے ایک کوٹہ الاٹ کیا جاتا ہے۔ اس رکن ملک کو مقررہ کوٹے کا 75 فی صد اپنی کرنسی میں ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ 25 فی صد سونے کی شکل میں جمع کروانا ہوتا ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے سونے یعنی گولڈ کے متبادل کے طور پر ایس ڈی آرSDR (Special drawing rights) متعارف کروائے گئے ہیں۔ ان ایس ڈی آرز کو گولڈ کے متبادل کا درجہ بھی حاصل ہے۔
آئی ایم ایف قرض کیسے دیتا ہے؟
آئی ایم ایف کی جانب سے متعین کردہ کوٹہ سسٹم ادارے کے لیے فنڈ کا سب سے بڑا سورس ہے۔ اس کے علاؤہ دوطرفہ قرض معاہدے اور دیگر معاہدے بھی آئی ایم ایف کے فنڈنگ سورسز میں سے گنے جاتے ہیں۔ جہاں تک قرض دینے کی بات ہے تو ایسے ممالک جن کی معیشت عالمی بحران کا شکار ہو وہ آئی ایم ایف سے قرض کی اہل سمجھی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف ایسے ممالک کی مائیکرو اکنامک پالیسیوں کا جائزہ لیتا ہے۔ قرض کی ادائیگی کا ٹائم فریم اور اپنی شرائط طے کرتا ہے۔ ان شرائط میں شرح سود میں اضافہ، خسارے میں جانے والے قومی اداروں کی نجکاری، کثیر القومی اداروں کے لیے بزنس کی زیادہ سے زیادہ آزادی ،سبسڈی کے خاتمے، ٹیکس نیٹ کے دائرہ کار میں وسعت اور حکومتی اخراجات میں کمی جیسی شرائط نمایاں ہیں۔
آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لئے ہر حکومت کو باقاعدہ طور پر درخواست کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ اس سے پہلے اپنے ملک کی کابینہ سے اس کی منظوری بھی لینا پڑتی ہے۔ جس کے بعد قرض کے طلبگار ملک اور آئی ایم ایف کی مقرر کردہ ٹیموں کے مابین طویل مذاکرات کے دور شروع ہوتے ہیں۔ جو اسٹاف لیول سے لے کر اعلیٰ سطحی معاہدوں پر منتج ہوتے ہیں۔ ان معاہدوں میں ہی تمام متعلقہ شرائط کا ذکر ہوتا ہے جن میں سے پیشتر کو قرض کی منظوری سے قبل ہی پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف قلیل مدتی قرض فراہم کرتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس عالمی بینک کی جانب سے طویل مدتی قرض دیے جاتے ہیں۔ عالمی بینک کا تذکرہ الگ مضمون میں کیا جائے گا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف
پاکستان 1950 میں پہلی بار آئی ایم ایف کا رکن بنا۔ اور بدقسمتی سے محض آٹھ سال بعد ہی 1958 میں پاکستان نے قرض کے لیے پہلی بار آئی ایم ایف کو درخواست دی۔ اس کے بعد قرض لینے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ سال 2019 تک اکسٹھ سالوں میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے 22 بار قرض لیا ہے۔ اور سخت شرائط کے عوض قرض کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ اس دوران کئی بار آئی ایم ایف کو خیرباد کہنے کے دعوے کیے گئے لیکن تاحال یہ ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔ حال ہی میں ایک معاہدے کے تحت پاکستان نے آئی ایم ایف سے ساتویں اور آٹھویں قسط حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سبسڈیز کا خاتمہ کیا ہے۔ جس سے عوام کے لیے مہنگائی کا طوفان برپا ہوا ہے۔ تاہم اس دوران وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے قوم کو نوید سنائی ہے کہ آئی ایم ایف سے مزید قرض ملنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کا جس مقصد کے تحت قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس مقصد کو حل کرنے کی بجائے اس ادارے سے قرض لینے والے ممالک مسلسل قرض کی دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ اور کبھی نکل نہیں پاتے۔ دوسری جانب قلیل مدتی سطح پر آئی ایم ایف کی سخت شرائط بھی عوام کے لیے بے پناہ مسائل پیدا کرتی ہے۔ تاہم مجموعی طور پر عالمی سطح پر یہ ادارہ بڑی معیشتوں کے مفادات کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کرنے میں کامیاب ہے۔