سپریم کورٹ آف پاکستان نے دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کی جانب سے دائر کردہ درخواست کو خارج کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ دعا زہرہ کیمت والد متعلقہ فورمز کی جانب رجوع کریں۔ کیس سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ دعا زہرہ کے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران عدالت نے دعا زہرہ کے والد سے استفسار کیا کہ سندھ ہائیکورٹ نے دعا کو شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی، اب آپ کیا چاہتے ہیں؟ عدالت کا کہنا تھا دعا زہرہ کو پیش کیا گیا اس کی مرضی پوچھی گئی۔ دو عدالتوں میں بیان ہوئے۔ اس کے بعد اغواء کا کیس بے معنی ہو جاتا ہے۔ البتہ کم عمری میں شادی کے لیے متعلقہ فورمز پر درخواست دی جا سکتی ہے۔ لیکن اس سے نکاح باطل نہیں ہوتا۔
سماعت کے دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے مہدی کاظمی سے سوال کیا کہ بالفرض دعا زہرہ آپ سے مل کر بھی آپ کے ساتھ جانے سے انکار کر دے پھر کیا کریں گے؟ جس پر مہدی کاظمی خاموش رہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ بچی کے بیانات ہو چکے ہیں اسلیے یہ نہیں کہ سکتے کہ اس کو اغواء کیا گیا ہے۔
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ دعا زہرہ کے والدین جتنی دیر چاہتے ہیں اپنی بیٹی سے مل لیں۔ چھ گھنٹے مل لیں۔ لیکن عدالت شادی کا تعین نہیں کر سکتی۔ اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا قانون واضح ہے۔ اس نکاح کو لڑکی چیلنج کر سکتی ہے۔ بچی سے زبردستی نہیں کر سکتے۔ اگر 16 سال کم عمری میں بھی نکاح کیا گیا ہے تو نکاح ختم نہیں ہو گا۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ جسے سناتے ہوئے دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کی درخواست کو خارج کر دیا گیا۔