آپ خواہ تسلیم کریں یا نا کریں۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ ویڈیو گیمز نے ہماری زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ لاکھوں لوگ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں جن میں اکثریت موبائل ویڈیو گیمز کی شیدائی ہے۔ کچھ لوگ انہیں تفریح اور وقت گزاری کے لیے کھیلتے ہیں تو کچھ کے لیے یہ باقاعدہ لائف سٹائل بن چکا ہے۔
اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنسدانوں نے یہ تخلیقی خیال پیش کیا کہ گیمز کو بطور سائنسی تحقیق استعمال کیا جائے۔ انہیں ایسے سائنسی ٹول بنا لیا جائے جن کی مدد سے کسی بھی تحقیق کی رفتار کو تیز کر کے ان سے خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ یعنی گیمرز تو بظاہر گیمز کھیل رہے ہوں لیکن وہی گیمز پس پردہ کسی سائنسی تحقیق کے لیے ضروری مواد فراہم کریں۔
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسی کون سی دس حیرت انگیز گیمز ہیں جو کہ سائنسی تحقیق میں بھی کام آ رہی ہیں۔
اس گیم کو سائیریکیوس یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے ایک گروپ نے ڈیزائن کیا ہے۔ اس گیمز کے کئی ورژنز ہیں جن میں اپنی پسند کو چنا جا سکتا ہے مثلاً ہیپی شارکس، ہیپی ریز، ہیپی موتھ وغیرہ۔۔۔۔ تمام ورژنز کا بنیادی مقصد اور کام ایک ہی ہے اور وہ ہے جانوروں کی جماعت بندی۔۔۔
اس گیم کی شروعات ہی میں مختلف جانوروں کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں۔ اور پھر گیمر اس جانور کی خصوصیات کے متعلق سادہ اور آسان سوالوں کے جواب دے کر اس کی جماعت بندی میں مدد دیتا ہے۔ یوں کھیل کھیل میں ایک بڑی سائنسی تحقیق میں بھی مدد ملتی ہے۔
اگر آپ کے پاس ڈرون کواڈ کاپٹر موجود ہے تو ایسٹرو ڈرون آپ کی وقت گزاری کے لیے بہترین جزوی حقیقت یعنی آگمینٹڈ ریالٹی پر مبنی گیم ہے۔ اس گیم کو یورپی خلائی ایجنسی کی جانب سے ایکا سائنسی کراؤڈ سورسنگ پراجیکٹ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس گیم میں ڈرون کے ذریعے جزوی حقیقت کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے تصوراتی طور پر مختلف خلائی مشنز مکمل کیے جاتے ہیں۔ ان میں لینڈنگ،ڈاکنگ، اور رکاوٹوں سے بچنا وغیرہ جیسے عوامل شامل ہیں۔
اس گیم کے ذریعے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے خلائی ایجنسی کو حقیقت میں بھیجے جانے والے خلائی مشنز کے لیے مختلف خودکار طریقہ ہائے کار وضع کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مشہور گیم پوکے مون گو کی مانند اس گیم کو کھیلنے کے لیے بھی آپ کو گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس گیم کے ذریعے آپ کھیل کھیل میں اپنے اردگرد حیاتیاتی ماحول اور فطرت کے متعلق معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ گیم کھیلنے میں انتہائی آسان ہے بس اپنے اردگرد کسی بھی منفرد جانور کی تصویر لیں، گولڈ اسکور حاصل کریں اور گیم کا اگلا درجہ حاصل کریں۔ یوں آپ تو کھیل رہے ہوں گے لیکن سائنسدان حیاتیاتی تنوع کے متعلق ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہوں گے۔
نیورون اور اعصابی نظام کی پچیدگی اور ڈیزائن کا کھوج لگانا انتہائی دقت و وقت طلب کام ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایلن انسٹی ٹیوٹ آف برین سائنس کے تمام سائنسدان مل کر بھی پورے ہفتہ میں صرف ایک نیورون کا ڈیزائن سمجھ پاتے ہیں۔ جبکہ ایک عام اعصابی نظام میں کھربوں نیورون ہوتے ہیں۔ اسی لیے سائنسدانوں نے نیورون کی ٹریسنگ کرنے والی سہ جہتی گیم تیار کی ہے۔ دنیا کوئی بھی کہیں سے بھی بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے بہ یک وقت اس گیم کو کھیل سکتا ہے یوں ساتھ ہی ساتھ برین سائنس سے منسلک سائنسدانوں کو بھی مدد ملتی ہے۔
نومبر 2016 میں شروع کی جانے والی اس گیم میں اب تک 200 سے زائد گیمرز نے حصہ لیا ہے۔ یوں نیورون ٹریسنگ پہلے کی بہ نسبت گئی گنا زیادہ رفتار سے ہو رہی ہے۔
کچھ وقت کے لیے آپ خالی ہاتھ ہیں، تو کیوں نا Dizeez گیم کھیلیں۔ ایک “سماجی سائنس گیم” کے طور یہ گیم صرف وقت گزاری نہیں بلکہ وقت کا بہترین استعمال ہے۔ یہ ایک کوئز گیم ہے جس میں کسی بیماری سے متعلقہ پانچ جینیاتی چوائسز دی جاتی ہیں۔ ہر منٹ کے راؤنڈرز میں زیادہ سے زیادہ اسکور اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ یوں کھیل ہی کھیل میں آپ سائنس خصوصاً طبی سائنس کی ایک بہت بڑی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں اس گیم کو کھیلنے والے گیمرز سائنسدانوں کو پروٹین اسٹرکچر سمجھنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اس گیم کھلاڑی کو پروٹین کی بہترین شکل تیار کرنا ہوتی ہے۔ کھیل اور تحقیق ایک ساتھ۔۔۔ اس گیم کے ذریعے سائنسدانوں کو مختلف بیماریوں کے بہترین علاج دریافت کرنے اور آلودگی جیسے مسائل پر قابو پانے جیسے اقدامات میں سہولت ملتی ہے
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ چھ لاکھ افراد ملیریا کا شکار ہوتے ہیں۔ ملیریا ایک خاص قسم کے جرثومے پلازموڈئم سے لاحق ہوتا ہے۔ اس وقت ملیریا کی تشخیص کا واحد طریقہ خون کا ٹیسٹ ہے جس میں بہت وقت لگتا ہے۔ اس کام کی رفتار بڑھانے کے لیے میڈرڈ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے منسلک تحقیق دانوں نے ملیریاسپاٹ ببلز نامی گیم تیار کی ہے۔
اس گیم میں کھلاڑی نے مچھروں کو شوٹ کر کے ان سے پوپ اپ ہونے والے مختلف اقسام کے ملیریائی طفیلیوں کی شناخت کرنا ہوتی ہے۔
سی ہیرو کوئسٹ گیم بھی کھیلیں اور ساتھ میں سائنسدانوں کو ڈیمینشیا یعنی عتاہٹ نامی دماغی بیماری سے لڑنے کے لیے کمک بھی فراہم کریں۔ ڈیمینشیا ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان ذہنی طور پر کام کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔
اس کھیل میں آپ کو ایک ایسے کھلاڑی کا کردار کرنا ہوتا ہے جس کا ہمراہی ڈیمینشیا کا شکار ہے اور آپ نے کشتی کو مختلف راستوں سے لے کر جانا ہوتا ہے۔ اس دوران راستوں اور بھول بھلیوں کو یاد رکھنا ضروری ہوتا ہے تا کہ کھو نا جائیں۔ یوں اس گیم کی مدد سے سائنسدانوں کو یہ تحقیق کرنے میں مدد ملتی ہے کہ انسانی دماغ کا طرح راستوں کو یاد رکھتا ہے اور نیویگیٹ کرتا ہے۔
ہیومن کمپیوٹیشن انسٹی ٹیوٹ کی تیار کردہ سٹال کیچرز گیم ایک عام گیم نہیں ہے۔ اس گیم میں چوہے کے دماغ میں موجود بافتوں کی پرتوں کا مجازی خوردبینی مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ کھلاڑی نے ان پرتوں میں سے مخصوص شریانوں کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔ ان شریانوں کے سٹالز کو “پکڑنے” پر اسکور میں اضافہ ہوتا ہے اور اگلے کھیل اگلے لیول میں چلا جاتا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سے سائنسدانوں کو الزائیمر نامی بیماری کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
اکیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن ابھی تک سرطان یعنی کینسر جیسی موذی مرض کا خاطر خواہ علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ صرف امریکہ میں ہی سالانہ چھ لاکھ سے زائد افراد کینسر کی وجہ سے جان کی بازی ہارنے جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان کینسر کا علاج دریافت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اب سائنسدانوں اس تحقیق کے لیے سیل سلائڈر جیسی گیم تیار کر لی ہے جس کی مدد سے کھیل ہی کھیل میں کینسر جیسے مرض کے علاج کو دریافت کرنے میں مدد ملے گی۔