سیڑھیاں یا زینہ تعمیراتی ڈھانچے کا اہم ترین حصہ ہوتے ہیں۔ بلکہ انہیں تعمیراتی عجوبہ بھی کہا جائے تو غلط نا ہو گا۔ ہم اکثر روزانہ بیسیوں بار بلکہ بار بار سیڑھیاں یا زینے کا استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں استعمال کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ انسانی دریافت کتنی عظیم ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق انسان سے سب سے پہلے بلندی پر جانے کے لیے سیڑھیوں کا استعمال 6000 قبل مسیح میں کیا تھا۔ جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ اس مضمون میں ہم آپ کو ایسے ہی کچھ مقامات پر موجود دس مشہور ترین سیڑھیوں کے بارے میں بتائیں گے۔ تو آئیے ذرا نظر ڈالتے ہیں کہ دنیا بھر کی دس مشہور ترین سیڑھیاں کون سی ہیں جہاں سالانہ لاکھوں سیاح بھی وزٹ کرتے ہیں۔
ایکواڈور میں موجود یہ سیڑھیاں دریائے پستازہ کی مشہور آبشار فیلن ڈیابلو کے کنارے پر تعمیر کی گئی ہیں۔ یہ آبشار کافی بڑی ہے اور ایکواڈور کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ آبشار کنارے بنے زینے اپنی مثال آپ ہیں۔ اور بجائے خود ایک تفریحی و سیاحتی مقام رکھتے ہیں۔ یہ زینے آبشار کے ساتھ بننے والے قدرتی موڑوں پر اس طرح بنائے گئے ہیں کہ آبشار کا ہی حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ یوں ان کی خوبصورتی دو چند ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سیڑھیوں کو دنیا کی مشہور ترین سیڑھیوں میں ایک کا مقام حاصل ہے۔
اٹلی کے شہر روم میں موجود ہسپانوی زینے 135 قدموں پر مشتمل ہیں۔ یہ زینے ایک ڈھلوان کے بعد ٹرینیٹی ڈی مونٹی اور پیازہ ڈی مونٹی تک پہنچاتے ہیں۔ انہیں اٹھارہویں صدی میں سال 1723 تا 1725 کے دوران ہسپانوی سفارت خانے اور چرچ کے درمیان آنے جانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ دنیا بھر سے سیاح ان سیڑھیوں کو دیکھنے آتے ہیں اور ان پر چڑھ کر 1953 کی رومن ہالیڈے کو یاد کرتے ہیں۔
یوکرائن کے شہر اودیسا میں قائم پوٹیمکن زینے اودیسا کی شناخت ہیں۔ انہیں سمندر سے شہر کی جانب داخلے کی علامت بھی تصور کیا جاتا ہے۔ بلیوارڈ سیڑھیاں اور جناتی زینے جیسے ناموں سے مشہور یہ سیڑھیاں 200 زینوں پر مشتمل ہیں۔ جن میں سے 8 بندرگاہ کی تعمیر کے وقت ختم کر دیے گئے تھے۔ “بیٹل شپ پوٹیمکن نامی فلم میں اودیسا سٹیپ کا سین انہی سیڑھیوں پر فلمایا گیا تھا۔
بیلجئیم میں موجود بیورین ماؤنٹین، حقیقت میں پہاڑ نہیں ہے بلکہ 374 زینوں پر مشتمل سیڑھی ہے۔ جو کہ مشہور عالم لیکن کافی حد تک خستہ حال قلعہ شتاؤ تک لے کر جاتی ہے۔ ان سیڑھیوں کو 1881 میں تعمیر کیا گیا تھا تا کہ قلعہ سے فوچ کے سپاہی باآسانی شہر تک آ جا سکیں۔ ان کے آخری زینے پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو شہر اور دریائے میوس کا شاندار منظر نظر آتا ہے۔
یونان میں تعمیر شدہ سینتورینی سیڑھیاں دنیا کی مشہور ترین سیڑھیوں میں سے ایک ہیں۔ انہیں سال 1715 میں جزیرے کی مقامی آبادیوں کی جانب سے پہاڑ پر آنے جانے کے لیے غیر پختہ اور ناہموار بنایا گیا تھا۔ بعد میں انہیں سامان کی نقل و حمل خصوصاً جانوروں کے ذریعے سامان لانے لے جانے کے لیے مزید بہتر بنایا گیا۔ گو کہ اب جدید دور میں یہاں کیبل کار کی تنصیب بھی کر دی گئی ہے۔ لیکن گدھے کی پیٹھ پر بیٹھ کر زگ زیگ کی شکل میں سفر کر کے 657 زینے چڑھنا آج بھی بہت مشہور اور ایڈونچر سے بھرپور عمل ہے۔
سیگیریا جسے عرف عام میں شیر چٹان بھی کہا جاتا ہے، سری لنکا میں قائم ایک بڑی چٹان ہے جس کا محیط تقریباً 200 میٹر ہے۔ کسی زمانے میں اس چٹان کے اوپر بادشاہوں کی رہائش ہوا کرتی تھی۔ جسے بعد میں بدھ بھکشوؤں کی خانقاہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ ٹام چودھویں صدی تک بدھ خانقاہ کا کام دیتی رہی ہے۔ اب اسے یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثے کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس چٹان پر چڑھنے کے لیے 1200 زینے بنے ہوئے ہیں۔جن پر چڑھنا سخت دقت طلب کام ہے۔ تاہم چٹان پر پہنچتے ہی ساری تھکن دور ہو جاتی ہے کیونکہ اردگرد کے مانظر دل موہ لینے والے ہیں۔
اسرائیل کے شہر حیفہ میں قائم بہائی باغ دنیا کے خوبصورت ترین باغات میں سے ایک ہیں۔ انہیں بھی یونیسکو عالمی ورثے کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ باغات 19 چبوتروں اور 1700 زینوں پر مشتمل ہیں۔ یہ سیڑھیاں دنیا کی خوبصورت ترین سیڑھیوں میں سے ایک ہیں۔ اور کارمل پہاڑ کی شمالی ڈھلوان تک جا نکلتی ہیں۔ ان کے پہلوؤں میں دو ندیاں بھی بہتی ہوئی نیچے کو جاتی ہیں اور نہایت ہی بھلا منظر پیش کرتی ہیں۔
شلاس برگ کلاک ٹاور، آسٹریا کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ اس کے ٹاپ سے گیراز شہر کے تمام حصے اور اردگرد کے علاقے صاف نظر آتے ہیں۔ اس ٹاور تک جانے کے لیے سیڑھیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ 260 زینوں پر مشتمل ہیں۔ ان زینوں کو پہاڑ کے دامن کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔
تھائی لینڈ کے شہر کراچی میں موجود ٹائیگر کیو ٹیمپل بدھ مذہب کا ایک مشہور معبد ہے۔ اس معبد تک جانے کے لیے دو سیڑھیاں ہیں جو کہ مل کر ایک بل دار سیڑھی بناتی ہوئی اوپر کو لے جاتی ہیں جہاں بدھا کا 278 میٹر مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ یہ مجسمہ 600 میٹر معبد کے اوپر نصب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سیڑھیوں کا ایک اور سلسلہ چونے کے پتھر کی غاروں تک لے جاتا ہے۔ کل ملا کر یہ سیڑھیاں 1237 زینوں پر مشتمل ہیں۔
چاند باؤری دراصل ایک سیڑھیوں والا کنواں ہے جسے مقامی زبان میں باؤلی بھی کہا جاتا ہے۔ بھارت کی ریاست راجھستان میں قائم ملک کا سب سے بڑا اور گہرا ترین کنواں ہے۔ راجھستان میں پانی کی شدید کمی کے باعث اس کنویں کو تعمیر کیا گیا۔ اور پھر لمبے عرصے تک پانی ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ کنواں 16 منزلوں پر مشتمل ہے۔ ہر منزل کی پیمائش 100 فٹ ہے۔ اس تعمیر کردہ 3500 زینے نہایت ہی خوبصورتی اور مہارت سے تعمیر کیے گئے ہیں اور ٹھنڈے پانی تک لے جاتے ہیں۔ یہ باؤلی اور اس کی سیڑھیاں مشہور عالم ہالی ووڈ فلم The dark Night Rises میں بھی فلمائی گئی ہیں۔
تو یہ تھیں دنیا کی مشہور ترین سیڑھیاں۔۔۔ ان کے علاوہ بھی کئی سیڑھیاں ہیں جو خوبصورتی، شہرت اور تاریخ میں اپنا مقام رکھتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کے گرد کیبل کار اور لفٹ جیسی سہولیات نصب کی گئیں ہیں تا کہ اگر سیاح سیڑھیاں چڑھنے سے قاصر ہوں تو ان کا استعمال کر کے باآسانی مطلوبہ بلندی تک جا سکیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ بعض اوقات منزل سے زیادہ سفر کی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ تو ایسا ہی ان سیڑھیوں کے ساتھ بھی ہے جن پر زینہ بہ زینہ قدم رکھنے سے تاریخ کے کئی راز منکشف ہوتے ہیں۔