ڈیلی دھرتی ( ویب ڈیسک) تفصیلات کے مطابق اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں کسی جلسے یا سیاسی اجتماع پر یہ پہلا قاتلانہ حملہ نہیں ہے قیام پاکستان کے چار برس سے شروع ہونے والا سلسلہ جاری ہے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سمیت چھ سربراہان مملکت کو قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں دو وزرائے اعظم جان سے ہاتھ دھو بیٹھے باقی پانچ محفوظ رہے
16 اکتوبر 1951 کو کمپنی باغ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے پہلے وزیراعظم نواب لیاقت علی خان پر گولی چلا کر انہیں ہلاک کر دیا گیا
8 نومبر 1968 کو پشاور یونیورسٹی میں خطاب کے دوران فائرنگ کر کے جان سے مارنے کی کوشش کی گئی تاہم صدر ایوب اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے
4 جنوری 1999 نواز شریف پر اس وقت حملہ ہوا جب وہ وزیراعظم تھے۔ اپنے دوسرے دور حکومت میں وہ لاہور کے نواحی علاقے جاتی عمرہ میں واقعے اپنی رہائش گاہ کی جانب جا رہے تھے کہ ان کے راستے میں ایک پل کے نیچے رکھا گیا بم ان کی گاڑی گزرنے کے بعد پھٹا اور اس طرح وہ محفوظ رہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف پر دو حملے ہوئے پہلا حملہ 14 دسمبر 2003 راولپنڈی کے جھنڈا چیچی پل پر ریموٹ کنٹرول بم سے کیا گیا تھا لیکن بم اس وقت پھٹ نہ سکا، جب گاڑیاں پل سے گزر رہی تھیں۔دس دن بعد سابق صدر پرویز مشرف پر 25 دسمبر کو دوسرا حملہ کیا گیا اور انہیں خودکش حملے کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حملے میں صدر جنرل پرویز مشرف بال بال بچ گئے۔
27 دسمبر 2007ء کو جب بے نظیر لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد آ رہی تھیں کہ لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کارکن بے نظیر بھٹو کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔