چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وفاقی حکومت سے انتخابات کے لیے درکار فنڈز کی فراہمی سے متعلق دوبارہ جواب طلب کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ فنڈز فراہم نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
وزارت دفاع کی درخواست پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں عدالت عظمی کا تین رکنی بینچ ملک میں ایک ساتھ انتخابات کی درخواست پر سماعت جاری رکھے ہوئے ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اکتوبر تک الیکشن نہیں ہو سکتے جبکہ الیکشن کمیشن نے پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کروانے کابھی کہا ہے، مگر الیکشن کمیشن کی اس بات پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سکیورٹی کی عدم فراہمی ہے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ دہشتگردی ملک میں سنہ 1992 سے جاری ہے مگر اس کے باوجود سنہ 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے اس بات سے قطع نظر کہ سکیورٹی کے مسائل ان انتخابات میں بھی تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سنہ 2008 میں تو حالات بہت کشیدہ تھے کیونکہ 2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تھی، سنہ 2013 میں بھی دہشت گردی تھی، تو اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جو الیکشن نہیں ہو سکتے؟
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’پہلے ایک ساتھ تمام سکیورٹی فورسز نے فرائض سر انجام دیے تھے، مگر اب دو صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے مگر حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی کو توقع نہیں تھی کہ دو صوبوں میں اسمبلیاں پہلے تحلیل ہو جائیں گی۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گذشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور اگر عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی تھی، صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی تو ہونے ہی تھے، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔
تین رکنی بینچ کے دوسرے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ برطانیہ میں جنگ کے دوران بروقت انتخابات ہوئے تھے، بم دھماکوں کے دوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوتے تھے، عدالت کو کہاں اختیار ہے کہ الیکشن اگلے سال کروانے کا کہے؟