ڈیلی دھرتی (ویب ڈیسک) تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ لارجر بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کی ویڈیوز میں کئی لوگ حساس مقامات پر حملہ کرتے نظر آئے، حملے آرمی اور ایئرفورس کی تنصیبات پر ہوئے۔ لیکن صرف 102 افراد کو ملٹری ٹرائل کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
منصور عثمان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کی اجازت مستقبل میں دوبارہ نہیں دی جا سکتی۔ ایسے حملے مستقبل میں نہیں ہونے چاہئیں، ان حملوں پر جو رد عمل تھا وہ ایسا نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا۔
اس موقع پر جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کس طریقہ کار کے تحت لوگوں کو فوجی تحویل میں لیا گیا ہے؟
جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کا سوال یہ ہے کہ گرفتار افراد کو منصفانہ اور فیئر ٹرائل کا حق ملے گا یا نہیں، پہلے عدالت کو ملٹری ٹرائل کا طریقہ کار بتانا چاہتا ہوں پھر سوالات کے جواب دوں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن میں سول جرائم کی بات واضح ہے، اگر کوئی سویلین سول جرم کرے تو ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت نہیں ہو سکتا لیکن جب آرمی ایکٹ میں 2015ء میں ترامیم کی گئیں تو سویلینز کے ٹرائل کی شقیں شامل کی گئی تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 پڑھیں جس میں سویلینز کے ٹرائل کی بات ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ سیکشن 2 کے مطابق کوئی سویلین دفاعی کام میں رخنہ ڈالے تو وہ اس قانون کے نرغے میں آتا ہے، آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی سویلین افواج کا ڈسپلن خراب کرے تو بھی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ افواج کا ڈسپلن کیسے خراب ہوا؟ افواج کا ڈسپلن خراب کرنا قانون میں درج ہے یا قانون سے اخذ کیا گیا ہے؟
جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے جواب دیا کہ یہ آرمی ایکٹ میں درج ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسارکیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرمی ایکٹ بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج ہے؟
اٹارنی جنرل بولے جی، آرمی ایکٹ پر بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے زور دے کر استفسار کیا کہ کہ فوجی ہو یا سویلین، کیا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں آنے والے بنیادی انسانی حقوق سے خارج ہوں گے؟
جسٹس اعجاز الاحسن بولے سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کیلئے 21 ویں ترمیم کی گئی تھی، سویلین پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کیلئے شرائط رکھی گئیں، اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتیں مخصوص وقت کیلئے تھیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیسے دلائل دے رہے ہیں اس میں آپ اپنی ہی کہی بات کی نفی کررہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی فوجی کا جھگڑا کسی سویلین سے ہو تو ٹرائل کیسے ہوگا ؟ قانون بلکل واضح ہونا چاہیے جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا کسی آرمی افسر کو زخمی کرنا اس کو اپنی ذمے داری ادا کرنے سے روکنے کے مترادف ہو گا؟ بنیادی انسانی حقوق کے بغیر تمام جرائم پر کورٹ مارشل کی سزا لگتی ہے، ایک طرف درج ہے کہ ریاست انسانی حقوق سے ماورا کوئی قانون نہیں بنا سکتی، دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ اس مخصوص قانون میں تو انسانی حقوق کا اطلاق ہوتا ہی نہیں، آپ کی دلیل کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے بعد سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا قانون عمل میں آیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد سویلینز کو شامل کیا گیا ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم سے پہلے اس قانون کا اطلاق صرف افواج پر ہوتا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر کل پارلیمنٹ ملٹری ایکٹ میں بنیادی انسانی حقوق شامل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یعنی ملٹری ایکٹ میں بنیادی انسانی حقوق دینا یا نہ دینا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آج ایک پارلیمنٹ ملٹری ایکٹ میں بنیادی حقوق شامل کرے، اگلی پارلیمنٹ انہیں نکال دے، قانون بالکل واضح ہونا چاہیے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم نے انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات میں فرق کر کے سب سے بڑا تحفظ دیا تھا، 21 ویں آئینی ترمیم میں ٹرائل میں مجوزہ طریقہ کار دے کر انسانی حقوق کا تحفظ کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ عدلیہ کی آزادی انصاف کی بنیاد ہے، ملٹری ایکٹ کے تحت پراسیکیوشن کیس کا فیصلہ کرے گی، اپیل بھی سنیں گے، اٹارنی جنرل! 2015ء میں جو آئین کو پسِ پشت ڈالا گیا تھا وہ اب نہیں ہو رہا، فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف کسی آزادانہ فورم پر اپیل کا حق بنیادی حقوق کی ضمانت ہے۔