ڈیلی دھرتی (ویب ڈیسک) تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ کا مختصر کارروائی کے بعد ٹوٹ گیا۔اپنی 20 منٹ کی طویل آبزرویشن میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ پروسیجرل ایکٹ کا فیصلہ نہیں ہو جاتا کسی بنچ کا حصہ نہیں بن سکتے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسی اٹارنی جنرل کو روسٹرم کو بلاتے ہوئے کہا کہ وہ کچھ آبزرویشن دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کل شام انہیں کاز لسٹ دیکھ کر تعجب ہوا۔ وہ حلف کے مطابق آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے، قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے، اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا، اس قانون کے مطابق بینچ کی تشکیل ایک اجلاس میں ہونا تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ عدالتوں کوسماعت کا دائرہ اختیارآئین کی شق 175دیتا ہے، صرف اورصرف آئین عدالت کودائرہ سماعت کا اختیاردیتا ہے، ہرجج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اورقانون کے تحت سماعت کریگا، واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کوکازلسٹ میں نام آیا۔ مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کوقانون بننے سے پہلے8 رکنی بینچ نےروک دیا تھا، کیوں کہ اس قانون پرفیصلہ نہیں ہوا اس پررائے نہیں دونگا، پہلے ایک تین رکنی بنچ جس کی صدرات میں کررہا تھا ، 5 مارچ والے فیصلے31 مارچ کوایک سرکیولرکے ذریعے ختم کردیا جاتا ہے، ایک عدالتی فیصلے کورجسٹراز کی جانب سے نظرانداز کیا گیا، یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے، پھر اس سرکولر کی تصدیق کی جاتی ہے اور پھر اس سرکولر کو واپس لیا جاتا ہے۔
اپنی 20 منٹ کی طویل آبزرویشن میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ پروسیجرل ایکٹ کا فیصلہ نہیں ہو جاتا کسی بنچ کا حصہ نہیں بن سکتے۔