رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوتے ہیں مسلمان رحمتیں سمیٹنے لگتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اس مہینے میں اللہ سے رجوع کر کے اپنے گناہ معاف کروائیں۔ رمضان میں افتاری کے وقت روزہ کھولنے کی دعا مندرجہ ذیل ہے۔
اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔
اے اللہ !میں نے تیری رضا کے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا ۔
افطار کے وقت احادیث سےدو دعائیں پڑھنا منقول ہیں:
1) “اَللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ”. [مشکاة، ص:175،کتاب الصوم. ط:قدیمی کراچی]
ترجمہ:اے اللہ!میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اورتیرے ہی رزق سے افطارکیا۔
(2) “ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ“. [سنن أبي داؤد. 2/278،بیروت]
ترجمہ:پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہاتواجروثواب قائم ہوگیا۔
اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.
’’اے اﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کی
اور اس دعا میں ”وبک آمنت وعلیک توکلتُ“کا اضافہ “جامع الرموز” میں قہستانی نے ذکر کیا ہے۔ (کتاب الصوم قبل فصل الاعتکاف: ص۱۶۴)
لیکن ملا علی قاری رحمہ اللہ نے ”مرقاۃ المفاتیح” (۴:۴۲۶، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) میں اورحضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ نے ”حصن حصین” مترجم (ص۲۱۶) کے حاشیہ میں اس اضافہ کو بے اصل قرار دیا ہے اور حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ نے ”جواہر الفقہ” (۳:۵۲۲ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) میں صرف مسنون الفاظ ذکر فرمائے ہیں۔لہذا صرف مسنون الفاظ پر اکتفا ہی بہتر ہے۔ البتہ اگر اسے مسنون دعا کا حصہ نہ سمجھتے ہوئے پڑھ لے تو اس سے منع نہیں کیا جائے گا۔
ان میں سے دوسری دعا تو بلاتفاق افطار کے بعد پڑھنے کی ہے، اور پہلی دعا کے بارے میں احادیث میں کسی قسم صراحت نہیں ہے کہ یہ دعا افطاری سے پہلے پڑھنی ہے یا بعد میں، مختلف احادیث میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں، جس سے تینوں باتوں کے اشارے ملتے ہیں، بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا پہلے پڑھی جاتی ہے اور بعض سے درمیان اور بعض سے آخر میں پڑھنے کا اشارہ ملتا ہے، بعض شراحِ حدیث نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے، لہذا کسی ایک قول پر اصر ار کرنا اور اس دعا کے افطار کے بعد پڑھنے کو ہی سنت کہنا درست نہیں ہے، جو بعد میں پڑھے اس پر بھی نکیر نہیں کرنی چاہیے اور جو پہلے پڑھے اسے بھی منع نہیں کرنا چاہیے۔
البتہ زیادہ مناسب یہی معلوم ہوتاہے کہ ان دعاؤں میں سے پہلی دعاافطاری سے قبل پڑھی جائے، جب کہ لوگ افطاری سے قبل دیگردعاؤں میں بھی مصروف ہوتے ہیں۔ اوردوسری دعا افطاری کے بعدپڑھی جائے جیساکہ اس کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔فقط واللہ اعلم